عالمی جنگ کے خطرات اور پاکستان کی سیاست
سید ضیا عباس
مارچ ۲۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
بین الاقوامی سطح اور میڈیا پر آج کل روس اور یوکرین کے درمیان جنگ موضوع بحث بنی ہوئی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس صدی میں دنیا ایک تباہ کن جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟ جنگیں صرف دو ملکوں کے درمیان نہیں ہوتیں بلکہ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں، جو کسی طور پر بھی مثبت نہیں ہوتے۔ جنگوں میں انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ معاشی نقصان بھی ہوتا ہے جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بڑی بربادی اور تباہی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہونے جارہی ہے جس میں اسلامی ملکوں کو مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ افغانستان، کشمیر اور فلسطین کے حالات پہلے ہی اسلامی دنیا کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں، ان کی اپنی تجارت اور معاشی صورتِ حال ہچکولے کھارہی ہے، ایسے میں اگر اسلامی ممالک تقسیم ہوئے تو اس سے اور بڑی بربادی سامنے آئے گی۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد عالمی کاروبار و تجارت پر منفی اثرات تیزی سے ظاہر ہوئے ہیں۔ عالمی اسٹاک مارکیٹیں کریش ہو گئیں۔ انڈیکس نفسیاتی حد تک نیچے گر گئے اور عالمی سطح پر پہلے سے جاری تیل کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ 1991میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے اپنی سابقہ یونین کے کئی علاقوں میں اپنے فوجی دستے بھیجے تھے، جہاں کئی دہائیوں تک باقاعدہ جنگ کا ماحول رہا۔ 2014میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ گروہوں نے یوکرین کے دارالحکومت کیف سے روسی حمایت یافتہ صدر وکٹر یانو کوچ کی حکومت ختم کردی۔ ایسے میں روس کے بعض حامیوں نے مشرقی یوکرین کے کچھ علاقے اپنے قبضے میں لے لیے۔ بعد ازاں روس اور یوکرین کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے اور بڑے پیمانے پر جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن 2015میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔ سات سال قبل ان خونی جھڑپوں میں 14ہزار کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ روسی صدر پیوٹن نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی تو فرانسیسی وزیر خارجہ جین یویس لی ڈرین نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیار نیٹو کے پاس بھی ہیں۔ روسی وزارتِ خارجہ کا موقف ہے کہ فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کے سنگین عسکری اور سیاسی نتائج ہوں گے۔ یہ صورتِ حال جنگ کے دائرے میں پھیلاؤ کے خطرے کا واضح اشارہ ہے۔ تنازع کے اس نوبت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسے مذاکرات کی میز پر حل کرانے کے لیے اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں نے مؤثر کردار ادا کیا ہوتا تو صورت حال مخدوش نہ ہوتی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے معاملہ مذاکرات سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ کشیدگی کے خاتمے کے کیلئے روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں جنگ بندی پر اتفاق نہ ہو سکا مگر یہ بات طے ہے کہ عالمی امن، بین الاقوامی معیشت اور پوری انسانی برادری کو تباہی سے بچانے کی خاطر لچکدار موقف اختیار کرتے ہوئے جنگ کے بجائے مذاکرات سے اختلافات کا پُرامن حل تلاش کرنا ہوگا۔ اسی طرز سیاست کو موجودہ عالمی صورت حال میں پاکستان میں بھی حکومت اور اپوزیشن کو اپنانا ہوگا۔ ہماری ریاست اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے جس میں اختلافات کو ہوا دینے سے حالات خراب ہوں گے۔وزیراعظم نے سیاسی اور عوامی دباؤ کے پیش نظر پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بالترتیب دس فی لٹر اور پانچ روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا ہے مگر اس کا فائدہ تبھی عوام کو پہنچے گا جب خود ساختہ مہنگائی اور گرانی کو روکا جائے گا۔
ملک میں سیاسی اعتبار سے بھی غیریقینی کی صورت حال ہے جس سے ہر طبقہ پریشانی کا شکار نظر آرہا ہے، موجودہ حکومت پاکستان کی نااہل ترین حکومت قرار دی جا رہی ہے جس نے دوسروں پر الزامات لگا کر عوام کو بےوقوف بنانے کی ناکام کوشش کی مگر اب قوم نئے پاکستان اور تبدیلی کے نعرے سے بےزار ہو چکی ہے، حکومت کو اپوزیشن سے نہیں بلکہ عوام کی مشکلات، پریشانیوں، ملکی تباہی، مہنگائی اور بیروزگاری سے پریشان ہونا چاہیے اور اس کے حل کے لیے بہتر اقدامات کرنا چاہئیں۔ پی ٹی آئی اپنے پہلے ہی دورِ حکومت میں عوامی ہمدردیوں سے فارغ ہو چکی ہے۔ ملک کی موجودہ تباہی اور بربادی میں حکومت کے ساتھ حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی اختلافات کی وجہ سے حکومت کو ایوانوں اور سڑکوں پر ٹف ٹائم نہیں دیا ان کا رویہ حکومت کی مضبوطی میں اہم ثابت ہوا، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں لوٹ مار، ڈکیتی اور قتل و غارت کا عفریت ایک بار پھر بےقابو ہوتا جا رہا ہے، جس کی روک تھام میں حکومت اور سیکورٹی ادارے ناکام نظر آرہے ہیں، کراچی میں مقامی چینل کے صحافی اطہر متین کا قتل افسوس ناک عمل ہے، دوسری جانب حکومت میڈیا سے خوف زدہ ہے، میڈیا کو دبانے کے لیے پیکا آرڈیننس لایا گیا ہے، حکومت اس سے پہلے بھی میڈیا مالکان کو دبائو میں لانے کے حربے استعمال کرتی رہی ہے، اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا گلا گھوٹنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ساتھ ہی الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان تنازع اور قوم سے وزیراعظم کے حالیہ خطاب سے ظاہر ہورہا ہے کہ عمران حکومت مکمل طور پر ناکام ہونے کے بعد اب بند گلی میں جا چکی ہے، وہ دن دور نہیں ہے جب عوام مہنگائی، بےروزگاری کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے، نئے انتخابات وقت کی ضرورت اور ملک کی بقا کیلئے ناگزیر ہو چکے ہیں۔