Zahur Dhareja 14

مولانا عبیداللہ سندھی کا 150واں یوم ولادت

ظہور دھریجہ

مارچ ۱۴۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲نیوز

عظیم عالمی حریت پسند رہنما مولانا عبید اللہ سندھی کا یوم ولادت شان و شوکت کے ساتھ منایا گیا۔خان پور میں مولانا عبید اللہ سندھی تھنکر فورم کی طرف سے شاندار تقریب کا اہتمام ہوا۔مولانا کے حالات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے فورم کے جنرل سیکرٹری مرزا حبیب نے کہا مولانہ عبید اللہ سندھی 12محرم الحرام 1279بمطابق 10مارچ 1872سیالکوٹ کے نواحی علاقے میں پید ا ہوئے والد کا نام رام سنگھ تھا۔نومولود کا نام بوٹا سنگھ رکھا گیا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ مولانا عبید اللہ سندھیؒ سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے ‘ مادری زبان پنجابی تھی قریبی رشتے دار جام پور ضلع دیرہ غازی خان میں رہتے تھے ‘ ابھی عمر چند سال ہی تھی کہ والدہ کے ساتھ جام پور آئے یہاں کا ماحول انہیں بھا گیا‘سرائیکی وسیب کی مسلم معاشرت ‘ زبان کی مٹھاس میل جول میں عاجزی انکساری اور انسانوں کے ساتھ انسانوں کی ہمدردی و غمگساری کے جذبات نے اُنہیں بے حد متاثر کیا‘ اور سکھ مذہب سے طبیعت اُچاٹ ہو گئی اور آپ مائل بہ اسلام ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد سکھ مذہب سے بغاوت کر کے مسلمان ہو گئے اورآپ کا نام عبید اللہ رکھا گیاآپ سرائیکی وسیب سے سندھ گئے اور وہاں بھر چونڈھی شریف میں حضرت خلیفہ محمد صدیق صاحب کے مرید ہوئے ‘پیر صاحب نے فرمایا عبید اللہ آج سے میرا بیٹا ہے وہ پیر صاحب کی شفقت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے نام کے ساتھ ’’سندھی ‘‘ لکھ لیا جو آج تک ان کے نام کا حصہ ہے ۔ مولانا عبید اللہ سندھی بھرچونڈھی سے واپس خانپور آ کر دین پور شریف کو تحریک آزادی کا مرکز بنایا اور یہیں سے انگریزوں کے خلاف مشہور زمانہ ’’ریشمی رومال‘‘کی تحریک شروع کی ۔ وطن عزیز میں آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ یہ آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ آزادی کیلئے ہمارے اکابرین نے بے پناہ جدوجہد کی ‘ جلاوطنی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریز اقتدار سے نجات کیلئے انہیں لہو کے دریا عبور کرنے پڑے عظیم حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھیؒ انگریز کے خلاف عالمی تحریک آزادی کا آغاز کرکے پوری دنیا میں غاصب انگریز کو نفرت کی علامت بنا دیا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا عبید اللہ سندھی کا تاریخی طور پرایک شخص کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام ہے ‘ وہ بہت بڑے سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے لیڈر بھی تھے۔ انہوں نے پوری زندگی انگریز ا ستعمار‘تعصب اور تنگ نظری کے خلاف جدوجہد کی ‘ انہوں نے انگریز کے خلاف جدوجہد کرنے والی تمام ہندوستانیوں کی مشترکہ جماعت آل انڈیا کانگریس کے صدر کی حیثیت سے تحریک آزادی کو اتنا منظم اور مربوط کیا کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ برطانیہ میں بیٹھے ہوئے انگریزوں کی نیندیں حرام ہو گئیں ۔ اس دوران آپ اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے مگر آپ مرد آہن ثابت ہوئے۔ انگریزوں نے اپنی طرف سے روا رکھی گئی ظلم و زیادتی کی تمام کاروائیوں کے باوجود مولانا حریت سے باز نہ رکھ سکے تو عاجز آکر مولانا عبید اللہ سندھی کو جلا وطن کردیا۔ جلا وطنی کے دوران آپ نے افغانستان کا سیاسی تعلق برطانیہ سے ختم کرا کے سوویت یونین سے کرا دیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ 1920ء میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تحریک پر افغانستان کے امیر امان اللہ خان نے سوویت یونین سے دوستی کامعاہدہ کرلیا۔ اور ہندوستان کی انگریز سرکار کو ماننے سے انکار کر دیا اور سب سے اہم یہ کہ برطانیہ کی شدید مخالفت کے باوجود افغان حکومت نے اعلان کیا کہ ہم ہندوستان میں انگریز کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے اور جلا وطن حکومت کے فرمانروا مولانا عبید اللہ سندھی کو ہندوستان کا اصل وارث او رتخت نشین تسلیم کرتے ہیں ۔ جلا وطنی کے دوران مولانا سندھی نے روس اٹلی اور ترکی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور پوری دنیا میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کر دیا اور انگریزوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی کیا اور کس نظریے کے مالک تھے؟ جاننے کیلئے ان کی زندگی کا مطالعہ ضروری ہے ۔ حضرت سندھی کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ لکھا جاتا ہے مگر وہ مصنوعی مذہبیت کیخلاف تھے ‘ وہ اپنے ملک کیلئے لڑتے رہے مگر ان کا اس سر زمین ایک بھی مکان نہ تھا ‘ جب وہ فوت ہوئے تو کپڑوں کا ایک ہی جوڑاتھا جو وہ زیب تن کئے ہوئے تھے ‘ ان کے پاس جو کچھ آتا خرچ کر دیتے ‘ وہ انسانی اقدار کے نگہبان اور پاسدار تھے ‘ جاگیرداری اور سرمایہ داری کے سخت خلاف تھے ‘ وہ مزارعت کو حرام قرار دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ زمین اللہ کی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اسے حاصل ہے جو اسے کاشت کرتا ہے ۔ مولانا سندھی مکر وفریب اور ریاکاری کے سخت خلاف تھے ‘ آپ جب جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئے تو آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کو للکار کر کہا کہ غریبوں سے فریب بند کرو ‘ تم ایک لاکھ کی جیپ پر سفر کرتے ہو اور ایک ٹکے کی ٹوپی پہن کر غریبوںکو دھوکہ دیتے ہو۔فرقہ واریت‘ تعصب ‘ تنگ نظری ‘ عدم برداشت ‘ نفسانفسی ‘ ہوس پرستی اور دہشت گردی کے اس دور میں جبکہ برطانیہ کے بعد ایک اور استعمار امریکہ کی شکل میں سامنے آ چکا ہے اور اکثر مسلم زعما اس کے طابع مہمل اور آلہ کار بنے ہوئے ہیں‘ ہمیں ایک اور مولانا عبیداللہ سندھی کی ضرورت ہے۔ ایوب خان کے دور میں جرمن حکومت کا اعلیٰ سطحی وفد مولانا عبیداللہ سندھی کو جرمن قوم کی طرف سے خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے خان پور آیا ‘ کمشنر بہاول پور اور دوسرے حکام ساتھ تھے ۔ خان پور سے دین پور شریف کچے راستے پر گاڑیاں دھول میں پھنس گئیں ‘ جرمن وفد نے مٹی اور دھول کی پرواہ نہ کی ‘ پورا آدھ گھنٹہ قبر پر خاموشی اختیار کی ‘بعد میں کمشنر بہاول پور کو کہا یہ شخص جرمن قوم کا بھی محسن ہے اس نے پوری دنیا کو قبضہ گیر استعمار کے خلاف آزادی کا درس دیا ۔ اگر یہ شخص جرمن میں فوت ہوتا تو ہم اس کی بہت بڑی یادگار اور ان کے نام کا شہر آباد کرتے جس میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیاں اور اعلیٰ ترین لائبریریاں قائم ہوتیں ۔مگر کتنا افسوس ہے کہ اتنے عظیم شخص کی قبر پر جانے کیلئے راستہ بھی نہیں۔ جرمن وفد کو واپس گئے نصف صدی بیتنے والی ہے ‘ مولانا سندھی کے ابدی آرام گاہ کے راستے کی حالت آج بھی جوں کی توں ہے ‘ ایسا کیوں ہے؟ ۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.