ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
ایس اے ذاہد
فروری ۲۲۔۔۲۰۰
بشکریہ روزنامہ جنگ
تحریک عدم اعتماد اور لانگ مارچ کا شور و غلغلہ جاری ہے لیکن کسی کو مکمل تفصیلات کا ابھی تک علم نہیں ہے۔ ان معاملات بالخصوص تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اپوزیشن نہایت خفیہ اور محتاط انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی اور خراب گورننس اپوزیشن کے پاس موثر ہتھیار ہیں۔ ان کے علاوہ آئی ایم ایف سے نہایت سخت شرائط پر قرضوں کا حصول بھی اب خود حکومت کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ بجلی مزید مہنگی کی جارہی ہے۔ وقت اور حالات تیزی کے ساتھ حکومت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسلتے جارہے ہیں۔ حکومتی ترجمان یا خود حکمران جتنے مرضی بیانات دیں۔ حکومتی بیانیہ ناکام ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ اب اتنا وقت نہیں ہے۔ اپوزیشن اس وقت عدم اعتماد کی تحریک کے بارے میں صرف ایک نہیں بلکہ تین آپشنز پر صلاح مشورے کر رہی ہے۔ ان آپشنز میں عدم اعتماد پنجاب میں پیش کرنا پہلے قدم کے طور پر سرفہرست ہے۔ دوسرا آپشن اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد اور تیسرا آپشن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد لاناہے۔ دیگر معاملات پر غور کے علاوہ یہ تینوں آپشنز بھی زیر غور ہیں۔ ممکن ہے کہ اس ترتیب میں کچھ تبدیلی بھی کی جائے۔ لیکن امکان یہ ہے کہ عدم اعتماد پہلے پنجاب میں لائی جائے۔ ترین گروپ پنجاب اسمبلی میں اپنی مضبوطی کے ساتھ موجود ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کچھ چھوٹے گروپس ہیں۔ ان کے درمیان بھی رابطے اور ملاقاتیں ہونے کی اطلاعات ہیں۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ شہباز شریف نے حمزہ شہباز کی سربراہی میں ایک آٹھ رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو مسلم لیگ (ن) کے اراکین پنجاب اسمبلی کے علاوہ دیگر گروپس کے اراکین پنجاب اسمبلی سے رابطے کررہی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنما اس کمیٹی کے قیام سے انکار کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی کوئی کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔ شاید یہ بھی مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کا حصہ ہو۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کی شروع سے یہ خواہش رہی ہے کہ عدم اعتماد پہلے پنجاب میں لائی جائے۔ بڑی کوشش اور اتار چڑھائو کے بعد آخر کار مسلم لیگ (ن) نے اس پر آمادگی ظاہر کر دی۔ مبینہ طور پر عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں پنجاب میں معاملات کے علاوہ وفاق کی سطح پر معاملات طے کئے جارہے ہیں۔ جو تاحال حتمی فیصلے تک نہیں پہنچے اور یہی وجوہات پنجاب یا وفاق میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے میں تاخیر کے باعث ہیں۔ جن کو حل کرنے پر صلاح مشورے ہورہے ہیں۔یہاں یہ واضح کرنا بھی اہم اور ضروری ہے کہ اس سارے معاملے میں اسٹیبلشمنٹ مکمل طور پر غیر جانبدار ہے۔ سیاستدان اپنے معاملات خود حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیاستدان اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ اہم بات ہے کہ دوسری طرف حکومتی کوشش بھی یہی ہے کہ کسی طرح شہباز شریف کو جلد گرفتار کیا جائے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اب پہلے والا وہ ماحول نہیں حالات بہت تبدیل ہوچکے ہیں۔ اس لئے یہ گرفتاری مشکل نظر آرہی ہے۔ یہی صورت حال حمزہ شہباز کی بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی موقع پر گرفتاریاں ہو بھی جائیں لیکن بہرحال یہ کام مشکل ضرور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قومی اسمبلی اجلاس بار بار ملتوی کرنے کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔ مبینہ طور پر دو سمریاں بھی تیار کی گئی ہیں جو بوقت ضرورت کام آنے کے لئے رکھی گئی ہیں۔ ان سمریوں کی بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ کیا گیا ہوگا۔ لیکن اگر واقعی ایسا کچھ کیا گیا تو ملک میں شدید آئینی بحران اور حالات کا کسی اور طرف جانا یقینی ہوگا۔
پیکا قوانین میں تبدیلی و مزید سختی اور الیکشن کمپین میں پارلیمنٹرینز کو حصہ لینے کی اجازت کی منظوری جیسے عجیب و غریب اقدامات حکومت کے گلے پڑ سکتے ہیں اور ان اقدامات سے حکومتی مشکلات میں راحت کے بجائے مزید اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ترین گروپ نے پنجاب اور وفاق میں تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔ گمان یہ ہے کہ دوسرے گروپس بھی ساتھ دے سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں غیر یقینی صورتحال ہے۔ مہنگائی میں مزید اضافے کی بھی اطلاعات ہیں یہ سب کچھ نہ تو حکومت کے لئے خوش کن ہیں نہ ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہیں۔ اور اگر حالات کسی بحران کی طرف جائیں گے تو حالات مزید خراب ہوں گے۔ اپوزیشن نے اس بار ٹھوس منصوبہ بندی کی ہے اور وہ اپنے ایجنڈے پر احتیاط کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے جبکہ حکومت آرڈیننسوں اور سختی سے اپوزیشن کو دبانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ ایسے اقدامات کے نتائج کبھی بھی حکومت کی مضبوطی کے باعث نہیں بن سکتے۔ اس کو بجھتے دیئے کے ٹمٹمانے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ عوام ناقابل برداشت مہنگائی اور خراب گورننس کی وجہ سے حکومت سے نالاں ہیں۔ جبکہ حکومت ریوڑیاں اپنوں میں بانٹنے میں لگی ہوئی ہے۔ اپنوں میں بانٹنے اور دوسروں کو ڈانٹنے کا سلسلہ زیادہ دیر نہ پہلے کبھی چلا ہے نہ اب چل سکے گا۔ حکومت ہوش کے ناخن لے اور افہام و تفہیم سے معاملات سلجھائے یہی بہتر ہوگا۔