شفقت محمود اور جیمز کاروِل
ظفر محمود
د2021سمر 31۔۔۔
روزنامہ جنگ ا
صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا تو نتائج حکومت کی توقع کے مطابق نہیں تھے۔ پشاور ویلی کے اضلاع میں حیرت انگیز طور پر‘ جے یو آئی (فضل الرحمان گروپ)نے میدان مار لیا۔ انتخابی میدان میں ناقص کارکردگی پر وزیرِ اعظم نے پارٹی تنظیمیں تحلیل کر کے نئے عہدیداروں کا تقرر کر دیا۔ اِس تبدیلی سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی لیڈر شپ میں ہمہ جہتی کا فقدان اور نامناسب اُمیدواروں کے چنائوکو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ اِس موقع پر مُجھے جیمز کاروِل (James Carville) کا چند الفاظ پر مشتمل‘ ایک جملہ یاد آ رہا ہے جس نے انتخابی سیاست کی حکمتِ عملی کے حوالے سے بہت شہرت پائی۔ یہ صاحب 1992ء کے دوران امریکی صدارتی الیکشن میں بل کلنٹن کی انتخابی مہم میں کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ اِس الیکشن میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کا تجربہ‘ سرکاری اداروں کے حسنِ انتظام کا مرہونِ منت رہتا ہے۔
1977ء میں الیکشن ہوئے اور پھر مارشل لا کا نفاذ۔ سات سال بعد جنرل ضیاء الحق نے 1984ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے اقتدار کی مدت میں مزید پانچ سال کی توسیع حاصل کی۔ 1985ء کے دوران غیر جماعتی انتخاب ہوئے۔ اسمبلی کو اقتدار منتقل ہوا‘ مگر اِس شرط پر کہ صدرِ پاکستان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہو گا۔ اِسی اختیار کے تحت 1988ء میں صدر ضیاء الحق نے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کر دی۔ چند ماہ بعد اُن کی حادثاتی شہادت سے قوم کو سیاسی حیاتِ نو نصیب ہوئی۔ سیاسی پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت تو ملی مگر صدر پاکستان کے جانشین کو بھی آرٹیکل 58(2b) کا اختیار حاصل رہا۔ 1988ء میں الیکشن ہوئے اور صدر غلام اسحاق خان نے 1990ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کا الزام لگا کر گھر بھیج دیا۔ پھر مسلم لیگ کو باری ملی۔ مگر حکومت کے تیسرے سال سے پہلے 1993ء میں اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔
راقم کا تقرر ستمبر 1992ء کے دوران استنبول میں ہوا۔ وہاں پہنچنے پر ادراک ہوا کہ ترکی کے سیاسی حالات‘ پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں۔ کئی دفعہ مارشل لا نافذ ہو چکا ہے ا ور عوام میں مقبول لیڈر‘ پھانسی کے پھندے سے جھول چکے ہیں۔ وجہ یہ تھی کہ جدید ترکی کے بانی اتاترک کے وضع کردہ اصولوں کی حفاظت کا ذمہ‘ بااختیار اداروں نے ازخود اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا۔ سلیمان ڈیمرل وزیرِ اعظم تھے۔ اُنہیں ریفرنڈم کے ذریعے سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ملی تھی۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھے مگر سرپرستوں کے قابلِ بھروسہ صدر‘ ترگت اوزال کی کڑی نگرانی میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ میری تعیناتی کے دوران ہی رجب طیب اردوان نے استنبول شہر کے میئر کا الیکشن جیتا۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کا نقطۂ آغاز تھا کیونکہ آئندہ چند سال میں اِس لیڈر نے ترکی کی سیاست کا نقشہ بدل کر ملک کو اقتصادی ترقی کی راہ پر ڈال دیا ۔
پاکستان اور ترکی کے سیاسی انتظام کا ذکر اِس لئے کر رہا ہوں کہ قارئین کے سامنے وہ تناظر واضح ہو جائے جس میں پی ٹی وی کے خبرنامے پر قناعت کرنے والے مُجھ جیسے طالب علم کو پہلی دفعہ عالمی میڈیا پر امریکہ کے صدارتی الیکشن کا مشاہدہ نصیب ہوا۔ 1992ء میں بل کلنٹن صدارتی الیکشن لڑ رہے تھے۔ اُن کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے تھا اور وہ ایک چھوٹی ریاست ارکنساس کے گورنر تھے۔ اُن کے مقابلے میں جارج ایچ ڈبلیو بُش (George H.W Bush)‘ جن کا بیٹا بھی بعد ازاں امریکہ کا صدر بنا‘ اپنی صدارتی مدت کا پہلا دور مکمل کر چکے تھے۔ اِن چار سال کے دوران‘ عالمی سطح پر ایک عظیم تبدیلی رُونما ہوئی۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ کمیونزم کا فلسفہ اپنی دلکشی کھو بیٹھا اور برلن کی دیوار زمین بوس ہو گئی۔ کئی دہائیوں سے جاری سرد جنگ ختم ہوئی اور امریکہ کو دُنیا کی واحد عالمی قوت تسلیم کیا گیا۔ بُش حکومت نے اِس اہم تبدیلی کو بجا طور پر اپنی کارکردگی کے کھاتے میں شامل کیا۔ اِس دوران خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک اور اہم واقعہ بھی ہوا۔ صدام حسین کی حکومت نے کویت فتح کر کے عراق میں ضم کر لیا۔ جارج بُش نے عراقی فوجوں کو شکست دے کر کویت کو دوبارہ آزادی دِلائی۔ اِس کامیابی کا کریڈٹ بھی بُش حکومت کے حصے آیا۔ قصہ مختصر ریپبلکن پارٹی اور صدر بُش کو الیکشن میں بل کلنٹن جیسے نو آموز اُمیدوار کے مقابلے میں کامیابی کا پورا یقین تھا۔
مگر صدر بُش کی حیرت انگیز کامیابیوں کے دوران امریکہ کی اقتصادی تنزلی کا سفر بھی جاری رہا۔ بیروزگاری کی شرح جو 1989ء میں 5.9 فیصد تھی ‘ 1991ء میں 7.8 فیصد تک پہنچ گئی۔ جب الیکشن مہم زوروں پر تھی تو بل کلنٹن کی الیکشن ٹیم کے اراکین کا قبلہ درست کرتے ہوئے ‘ جیمزکاروِل (James Carville) نے اُنہیں ملک کی اقتصادی حالت پر توجہ مرکوز رکھنے کا سبق دیا۔ اُس کا جملہ آج تک الیکشن کی حکمتِ عملی میں حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے۔ اِس ایک جملے نے ملک کے صدارتی انتخاب میں عوامی رُحجان کی دُرست طور پر نشاندہی کر دی۔ اِس کے الفاظ کا نچوڑ تھا کہ ’’خارجہ پالیسی اور سیاسی میدان میں کامیابی کو زیادہ اہمیت نہیں ملتی۔ انتخاب میں رائے عامہ کا عملی اظہار‘ ووٹرز کے روزگار اور قوتِ خرید سے منسلک ہے‘‘۔ جیمز کاروِل کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی اور خلاف توقع بل کلنٹن نے صدر بُش کو پہلی چار سالہ مدتِ صدارت کے بعد وائٹ ہائوس سے باہر کر دیا۔
پی ٹی آئی کی سیاسی تنظیمِ نو ہو چکی ہے۔ شفقت محمودوفاقی وزیرِ تعلیم بالائی پنجاب میں الیکشن مہم کے سربراہ ہوں گے۔ باقی عہدیداروں کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر شفقت محمود کی صلاحیتوں کا قائل ہوں۔ میڈیا کی سِتم ظریفی ہے کہ صرف 14 سال بیوروکریسی کا حصہ رہنے کے بعد اُنہیں عملی سیاست میں آئے‘ 33 سال گزر چکے‘ مگر اب بھی چند تجزیہ نگار اُن کی سیاسی قابلیت کو سابق سول سرونٹ کی حیثیت سے پرکھتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی نے ایک دفعہ الطاف گوہر کے بارے میں کہا تھا کہ نوکری چھوڑنے کے بعد سرکاری ملازم کچھ بھی کر لے‘ ’’تب بھی دُنیا کی نظروں میں وہی کا وہی ! یعنی سابق بیوروکریٹ ہی رہے گا۔‘‘ تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں‘ مُجھے شفقت محمود کی سیاسی فہم و فراست سے اُمید ہے کہ وہ اپنی پارٹی لیڈرشپ کو آئندہ الیکشن سے پہلے جیمز کاروِل کے ناقابلِ فراموش الفاظ ’’احمق‘ معاملہ معیشت کا ہے‘‘ (It is the economy, stupid) کو پلے باندھنے کا مشورہ دیں گے۔