Yasir Pirzado 30

ارسطو کی کتاب، کافی، سگار اور مسرت

یاسر پیرذادہ
جنوری ۳۰۔۔۔۲۰۲۲

بشکریہ روزنامہ جنگ

سقراط، افلاطون اور ارسطو، یہ تین فلسفی ایسے ہیں جن سےمیں بہت تنگ ہوں۔ تینوں یونانی ہیں اور ایک ہی عہد میں آگے پیچھے وارد ہوئے۔حضرت سقراط تو خیر قابو میں ہی نہیں آتے، انہوں نے اپنے شاگردوں کو زِچ کرنے کیلئے ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈاتھا جس میں وہ اُن سے مکالمہ کرتے اور شاگردوں سے بظاہر آسان سوال پوچھ کر اُنہی سے جواب مانگتے اور اگر کوئی بیچارہ جواب دینے کی غلطی کر بیٹھتا تو اُس کے جواب میں نقص نکال کر کہتے کہ یہ بات غلط ہے۔ اگرکوئی شاگرد بعینہ وہی بات بھی کرتا جو بعد میں سقراط نے کرنی ہوتی تو بھی حضرت پہلی مرتبہ میں اُس غریب سے اتفاق نہ کرتے۔ آپ میں سے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آج میرا ارادہ سقراط پر تنقید کرکے تاریخ میں اُس کے درست مقام کا تعین کرنے کا ہے تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ ہر چند کہ استاد بالم ؔجیسے سنجیدہ اور مستند نقادوں کی رائے میں، جن کی شاہ عالم مارکیٹ میں قلفی کی اپنی ریڑھی ہے، فدوی کا مقام و مرتبہ کسی بھی لحاظ سے کانٹ، ہیگل، سپینوزا، دیکارٹ اور نطشے سے کم نہیں تاہم اِس کے باوجود میں خود کو سقراط کا ہم پلہ نہیں سمجھتا۔ کچھ لوگ اسے میری کسر نفسی پر محمول کریں گے اور میں انہیں اِس کا دوش بھی نہیں دوں گا۔رہی بات افلاطون کی تو وہ اپنے استاد سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا، اُس نے یہ پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ کون سے خیالات اُس کے اپنے ہیں اور کون سے سقراط کے۔ آج تک دنیا اِس مخمصے سے باہر نہیں نکل سکی کہ ’جمہوریہ ‘ کی اصل داد کسے دینی ہے۔یہ کتاب شروع تو سقراط کے مکالموں سے ہوتی ہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں سوال کرتا ہے کہ انصاف کیا ہے اور پھر اپنے شاگردوں کے ہر جواب کو رد کرکے اپنا فلسفہ انصاف بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انصاف اصل میں یہ ہے کہ ہر شخص اور ادارہ اپنی حدود میں رہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ سقراط کو موت کی سزابلا وجہ نہیں دی گئی تھی، موصوف خاصے باغی تھے۔ خیر، تو اسی کتاب میں افلاطون کے فلسفی بادشاہ کا تصوربھی موجود ہے۔ اِس تصور کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے افلاطون نے خودکو سامنے رکھ کر فلسفی بادشاہ کی اسامی کیلئے سی وی تیار کیا ہے۔لیکن میں اپنی اِس رائے پرہر گز اصرار نہیں کرتااور ویسے بھی کوئی تو بات ہوگی کہ پوری دنیا آج تک افلاطون کے افکارپڑھ کرسر دھن رہی ہے۔ قبلہ وہائٹ ہیڈ تو یہاں تک فرما گئے ہیں کہ افلاطون کے فلسفے کے سامنے باقی تمام دنیا کافلسفہ محض ایک ’فُٹ نوٹ‘ کی حیثیت رکھتاہے۔

اِن تینوں فلسفیوں میں سے اگر میں واقعی کسی کا مداح ہوں تو وہ ارسطو ہے ۔ اور سچی بات یہ ہے کہ میں صرف ارسطو سے ہی تنگ ہوں۔ جب بھی بندہ کوئی بات سوچنے لگتا ہے، لکھنے بیٹھتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ارسطو صاحب دو ہزار سال پہلے یہ بات سوچ کر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ علم الحیوانات سے لے کر ستاروں کی چال بتانے تک اور منطق کے اصول طے کرنے سےلے کر شاعری کی نزاکتوں پر روشنی ڈالنے تک، شاید ہی کوئی کام ایسا ہو جو اِس دیو قامت شخص نے نہ کیا ہو۔ ارسطو کی درجنوں کتابوں میں سے اگر کسی عام شخص نے کوئی ایک کتاب پڑھنی ہو تو میرا مشورہ ہوگا کہ وہ صرف’Nicomachean Ethics‘ پڑھ لے۔ یہ کتاب اُن بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے جن کا جواب ہر انسان کو چاہیے۔ اِس کتاب کانام ارسطونے اپنےبیٹے کے نام پر رکھاہے ۔ کتاب کا آغاز اِس سوال سے ہوتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ایک اچھی زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟ مطمئن اور مسرور زندگی کے اجزا کیا ہیں؟ کیا انسان دائمی مسرت حاصل کر سکتا ہے؟ وہ کون سے عوامل ہیں جو مسرت کے حصول کا تعین کرتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ کیسے بنایا جا سکتاہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جن پر ارسطو اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کرتا ہے اورپھرسوال کرتا ہے کہ انسان کیلئے اچھائی کیا ہے؟ اچھا ئی کو پانا ہی انسانی زندگی کی معراج اور اُس کا حتمی مقصد ہونا چاہیے کیونکہ مسرت کے حصول کیلئےیہ لازم ہے۔ارسطو کہتا ہے کہ جس طرح انسان مختلف قسم کے کام کرتے ہیں اور اُن میں درجہ بندی ہوتی ہے، کسی کا کام دوسرے سے بہتر ہوتا ہے اور کسی کا بہترین، اسی طرح زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی بہتر اور بہترین ہوتا ہے۔ بہترین زندگی وہ ہے جو روح کی پاکیزگی کے ساتھ اور متقی انداز میں گزاری جائے، ارسطو نے یہاں Virtueکا لفظ استعمال کیا ہے اور پھر ایک طویل فہرست دی ہے کہ بھلائی، خیر، اچھائی اور تقوی ٰ کے ممکنہ درجے کیا ہو سکتے ہیں اور اِن میں توازن کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

لیکن بے رحم نقاد مغرب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ارسطو کی اِس کتاب کا مقدمہ جس شخص نے تحریر کیا ہے اُس مرد عاقل نے ارسطو پر ایسی عالمانہ تنقید کی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتاہے۔ مثلاً وہ لکھتاہے کہ ضروری نہیں کہ ہر انسان کے اخلاقی فضائل یا اُس کا کمال فن ہی مسرت کا سبب بنے، دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتے مگر مسرور اور شاداں رہتے ہیں، انسان بنا کچھ کیے بھی خوش رہ سکتا ہےاور مسرت صرف کامیابی سے مشروط نہیں، دنیا میں پر مسرت ناکامیاں بھی ہوتی ہیں۔ ارسطو نے یہ فرض کر لیا کہ دنیا میں ایک کام اور اسے کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہی مسرت اور خوشی کے حصول کو ممکن بناتا ہےجبکہ ایسی بات نہیں، دنیا میں مختلف انسان مختلف طریقوں سے مسرت کشید کرتے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مختلف لطیفوں پر لوگوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے، کوئی قہقہہ لگا تا ہے اور کوئی صرف مسکرا کر رہ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ ارسطو پرتنقید سےمتاثر نہ ہوں، یہ ضروری بھی نہیں، دیکھنے کی بات مگریہ ہے کہ ارسطو جیسا دیوقامت فلسفی اور دانشور بھی تنقید سے مبرا نہیں۔ ہمیں بس یہ اصول یاد رکھنا چاہیےکہہم بڑے لوگوں کی شخصیت سے جب مرعوب ہوتے ہیں تو اُن کے کام کابھی مرعوبیت کے عالم میں ہی جائزہ لیتے ہیں جبکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر بڑے شخص کا ہر کام ہی معرکہ الآراہو۔ لیکن اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی عالمانہ ہستی کو پکڑیں اور اسے محض اِس اصول کی بنیاد پر رگید کر رکھ دیں۔ جو شخص جتنا بڑا عالم ہوتاہے اس پر تنقید کے لیے بھی اتنا ہی علم درکار ہوتا ہے۔ ارسطو کی کتاب پر تنقید میں وزن ضرور ہےمگر اِس کے باوجود یہ کتاب ایسی ہےکہ دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی اِس کی تازگی میں کمی نہیں آئی۔سردیوں کی شام ہو، ایک ہاتھ میں یہ کتاب ہو، دوسرے میں سگار ہو، ساتھ کافی کا مگ ہو، مسرت خود چل کر آجاتی ہے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.