Yasir Pirzada 6

جشن کہاں منانا ہے رہنمائی فرما دیں

یاسر پیرذادہ

مارچ ۶۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جن

فغانستان میں طالبان کی فتح کو چھ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں، امریکہ وہاں سے دُم دبا کر بھاگ چکا ہے، افغانستان میں بھارتی قونصل خانے بند ہو چکے ہیں، اشرف غنی جو ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اِس وقت عرب امارات میں کہیں پناہ لیے بیٹھا ہے، کابل میں ہماری مرضی کی حکومت قائم ہو چکی ہے جس کی ہم دنیا بھر میں وکالت کرتے پھر رہے ہیں، سرحد پاردہشت گردوں کو بھارتی ایجنسیوں کی جو پشت پناہی حاصل تھی وہ ختم ہو چکی ہے، جس قسم کا افغانستان ہم چاہتے تھے الحمدللہ ہم نے وہ ’حاصل‘ کر لیا ہے، لیکن اِس کے باوجود نہ جانے کیوں جمعہ کے روز پشاور کی مسجد میں خود کش حملہ ہوا جس میں 63نمازی شہید ہو گئے۔ یہاں میں ایک بات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں اور وہ اعتراف یہ ہے کہ اپنے ہم عصر اور سینئر لکھاریوں کے برعکس میرے پاس بعض اوقات سیدھی سادی باتوں کا جواب بھی نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ اِس کی وجہ میری کم علمی ہے اور کم علمی کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ میں نے پشاور میں دھماکے کے ڈانڈے افغانستان کی فتح سے جوڑ دیے ہیں، بھلا اِن دونوں باتوں کا آپس میں کیا تعلق! لیکن ذرا ٹھہریے۔ یہ ’’تھیسز‘‘ میرا نہیں بلکہ اُن بزرجمہروں کا ہے جو ’’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ وغیرہ جیسی تھیوریوں کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ گاہے گاہے ہمیں اُن کے رموز سے بھی آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ تمام باتیں اِن بزرجمہروں نے ہی سمجھائی تھیں کہ افغانستان میں جبہماری مرضی کی حکومت قائم ہوگی (جوکہ الحمدللہ اب قائم ہو چکی ہے) تو پاکستان میں امن قائم ہو جائے گا۔ امن تو خیر کیا قائم ہونا تھا، جو دہشت گردی ہمارے فوجی جوانوں اور پولیس کے سپاہیوں نے اپنا لہو دے کر ختم کی تھی وہ دوبارہ سے سر اٹھانے لگی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران بلوچستان میں حملے یکایک بڑھ گئے ہیں اور پشاور دھماکے نے تو گویا ہمیں وہ وقت یاد کروا دیا ہے جب ہمارے شہروں میں آئے روز خود کُش حملے ہوتے تھے۔ اِن بزرجمہروں نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ اب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی کیونکہ اشرف غنی کے دور میں بھارتی ایجنسی را یہاں دھماکے کرواتی تھی۔ اب چونکہ یہ نیٹ ورک ختم ہو چکا ہے اِس لیے دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی۔ مجھ ایسے بندے کے ذہن میں چونکہ مفسد خیالات پنپتے رہتے ہیں سو انہی خیالات کے زیر اثر میں نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا کیونکہ امریکہ کے جاتے ہی وہ تمام دہشت گرد جنہیں اشرف غنی کی حکومت نے افغانستان کی جیلوں میں بند کر رکھا تھا، رہا کر دیے گئے یا بھگا دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ رہائی کے بعد انہوں نے ہاورڈ میں تو داخلہ نہیں لینا تھا، انہوں نے وہی کام کرنا تھا جو انہیں آتا تھا لہٰذا وہ کام شروع ہو گیا ہے۔

اے پی ایس میں جان بحق ہونے والے بچوں کو بھی ہم نے شہید کہا تھا جس پر ایک بچے کی ماں چلا اٹھی تھی کہ میں نے اپنا بچہ اسکول میں پڑھنے کے لیے بھیجا تھا، جنگ میں شہید ہونے کے لیے نہیں۔ پشاور میں مرنے والے بھی کوئی جنگ لڑنے نہیں گئے تھے، وہ تو نماز جمعہ ادا کرنے گئے تھے۔ آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ہر مرتبہ ایک ہی قسم کا تجربہ کرکے یہ امید رکھنا کہ نتیجہ مختلف نکلے گا، پرلے درجے کی حماقت ہے۔ کئی دہائیوں سے ہم ایک ہی تجربہ مختلف قسم کے طریقوں سے کیے جا رہے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ کبھی نہ کبھی نتیجہ مختلف نکلے گا، یقیناً یہ حماقت سے بھی آگے کا کوئی درجہ ہے ۔ جیسا کہ میں اپنی کم علمی کا اعتراف کر چکا ہوں، اِس لیے یہ دہرانے میں کوئی حرج نہیں کہ میرے پاس اِس سوال کا جواب نہیں کہ یہ سلسلہ اب کہاں جا کر رکے گا۔ اگر بزرجمہروں سے پوچھیں تو وہ جواب میں عالمی امور کے ماہر بن کر ایسے لطیف نکات بیان کرتے ہیں کہ بندہ سر دھُنتا رہ جاتا ہے مگر یہ سمجھ نہیں آتی کہ اِن سب باتوں کا مطلب کیا ہے۔ پشاور دھماکے کے 63شہیدوں کے ورثا کو یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گے۔ بلوچستان میں شہید ہونے والے ایف سی اور فوج کے اہلکاروں کے بچوں کو بھی اِس قسم کی سفارتی باریکیوں سے کوئی مطلب نہیں کہ آج افغانستان میں کس کی حکومت ہے اور کون اپنا بوریا بستر لپیٹ کر دوڑ گیا۔ انہیں صرف اِس بات کا علم ہے کہ اُن کے سر پر اب کوئی آسرا نہیں رہا اور اُن کی دنیا لُٹ چکی۔ دہشت گردی کا جن پھر بوتل سے نکل رہا ہے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بوتل کا کاگ مضبوطی سے بند کرنے کی بجائے اتار کر رکھ دیا ہے اور اِس مغالطے میں ہیں کہ یہ کاگ ہمارا ہمسایہ آکر بوتل میں لگائے گا۔ بہتر ہے کہ ہم یہ کام خود کر لیں کیونکہ ہمسائے کو صرف بوتل سے کاگ اتارنا آتا ہے، بوتل کو بند کرنا اُس نے سیکھا ہی نہیں۔

کالم کی دُم: کرکٹ میں ’لیجنڈ‘ کا لفظ اگر کسی شخص کے لیے استعمال ہوسکتا ہے تو وہ شین وارن ہے اورجولوگ جادو پر یقین نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ وہ شین وارن کی بولنگ دیکھیں، جادو پراُن کا ایمان پختہ ہوجائےگا۔ایک مرتبہ عبدالقادر مرحوم سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے وارن کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقات کا احوال سنایا جب شین وارن خاص طور سے لاہور میں اُن کے گھر آیا تھا، وارن نے بتایا کہ اُس نے اپنے گھر میں قادر کی باؤلنگ کا ریکارڈرکھا ہوا ہے جسے وہ سیکھنے کی غرض سےگاہے گاہے دیکھتا رہتا ہے۔ اُس ملاقات میں قادر کچھ دیر کے لیے ڈرائنگ روم سے باہر گئے تو وارن نے وہاں موجود ساتھی کرکٹر سے کہاکہ وہ سگریٹ پینا چاہتا ہے، اِس پر اُس نے کہا کہ شوق سے پیو، مگر وارن نےجواب دیا کہ میں عبدل کے سامنے سگریٹ پینے کی گستاخی نہیں کر سکتا۔ انگلینڈ اور پاکستان وارن کے پسندیدہ حریف تھے، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ پاکستان کا کوئی ایک بھی بلے باز وارن کے سامنےجم کر کھیل سکا ہو۔ اپنی موت سے 12 گھنٹے پہلے شین وارن نے ایک ٹویٹ کی جس میں اُس نے آسٹریلوی کرکٹر روڈنی مارش کی وفات پر غم کا اظہار کیا تھا، اسے کیا معلوم تھا چند گھنٹوں بعد دنیا اُ س کی موت پربھی ایسے ہی ٹویٹ کر رہی ہوگی۔

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.