مسلمان ممالک ترقی کیوں نہیں کر پاتے؟
یاسر پیرذادہ
فروری 16۔۔۔2022
بشکریہ روزنامہ جنگ
کبھی کبھی مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مسلمان ممالک کا مسئلہ آخر ہے کیا؟ انتہائی کوششوں کے باوجود یہ ملک مغربی دنیا سے پیچھے کیوں ہیں؟ اِن ملکوں میں ترقی کا وہ ماڈل کیوں نہیں پنپ سکا جویورپ اور امریکہ میں کامیابی سے رائج ہے؟ حالانکہ یورپی یونین کی طرح مسلمان ملکوں نے بھی اپنا اتحاد بنا رکھا ہے، تیل اور معدنیات کے ذخائر اِن کے پاس ہیں، تعلیم پر بھی اب اِن کی خاص توجہ ہے، جدیدیت کی طرف بھی مائل ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ بات بن نہیں پا رہی؟او آئی سی 1969 میں قائم ہوئی تھی، اقوامِ متحدہ کے بعد یہ سب سے بڑی عالمی تنظیم ہے جس میں 57 مسلم ملک شامل ہیں جن کا جی ڈی پی 28 ٹریلین ڈالر ہے ۔ اِس کے مقابلے میں یورپی یونین 1993میں بنی، 27ممالک اِس کے رکن ہیں اور اِس اتحادکا جی ڈی پی 17ٹریلین ڈالر ہے۔اسی طرح ’تیل اور معدنیا ت کی دولت سے مالا مال‘ والا سبق تو ہم نے طوطے کی طرح اسکول سے رٹا ہوا ہے، مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔ تعلیم پر بھی مسلم ممالک خاصے وسائل استعمال کر رہے ہیں، قطر نے تو دنیا کی بہترین جامعات کے کیمپس اپنے ملک میں قائم کر دیے ہیں جہاں ذہین طلبا کو وظائف بھی دیے جاتے ہیں، شاہ عبد اللہ سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی دنیا کی پہلی پانچ سو جامعات میں سے ایک ہے۔ رہی بات جدیدیت کی تو سعودی عرب جیسے ملک میں سنیما گھر کھل رہے ہیں، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا اور دبئی تو خیر اِس سے کہیں آگے ہیں۔ پھر مسئلہ آخر ہے کہاں؟
ایک توجیہہ تو یہ پیش کی جا سکتی ہے کہ مغرب کو اِس مقام تک پہنچنے میں لگ بھگ چار سو سال لگے، نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا، صنعتی انقلاب آیا، رومانویت اور سیکولرازم کی تحریکیں پروان چڑھیں، بادشاہ سے اقتدار چھین کر عوام کو حاکم بنایا گیا، جنگیں لڑی گئیں، کروڑوں لوگ مارے گئے اور پھر کہیں جا کر یورپ حکمرانی کا وہ ماڈل بنانے کے قابل ہوا جس پر پوری دنیا آج رشک کرتی ہے۔ چاہے ہمیں یہ بات پسند آئے یا نہ آئے مگر حقیقت یہی ہے کہ مسلمان یورپ میں خود کو آزاد اور محفوظ تصور کرتے ہیں اور بے حد مذہبی رجحانات رکھنے والے گھرانے بھی موقع ملنے پر اپنی بہو بیٹیوں سمیت وہاں منتقل ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان ممالک کو ابھی چار سو سال نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے اپنے ممالک میں انقلابات برپا کرنے کے لیے یورپ کی طرح جدو جہد کی ہے مگر یورپ کے برعکس مسلم ممالک کے سامنے ایک ماڈل پہلے سے موجود ہےاِس لیے ضروری نہیں کہ مسلمانوں کو بھی چار سو سال ہی لگیں اور وہ آپس میں جنگ و جدل کرکے کروڑوں لوگوں کا خون بہائیں۔ بظاہرمسلم ممالک فلاحی ریاست کے اُس ماڈل کو اپنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں مگر کامیاب نہیں ہو پارہے۔ آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟
اِس کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے اور وہ ہے عدم جمہوریت۔ ’فریڈم ہاؤس‘ امریکہ کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، اس کی تحقیق کے مطابق دنیا کے جن ممالک کی آبادی دو لاکھ سے زیادہ ہے وہاں انتخابی جمہوریتوں کا تناسب 56 فیصد ہے جبکہ مسلم ممالک میں یہ تناسب صرف 20 فیصد ہے۔ اگر ہم ایک سے سات تک کے پیمانے پر جمہوریت کو ماپیں (جس میں ایک بہترین جمہوریت اور سات بد ترین ہو) تودنیا کے ممالک کی جمہوری اوسط ساڑھے تین بنتی ہے جو مسلمان ممالک کی اوسط سے کہیں بہتر ہے جو پانچ بنتی ہے۔ 2021میں امریکی جریدے ٹائم نے ایک اشاریہ مرتب کیا جس میں دنیا کے تمام ممالک کے طرز حکمرانی کی پڑتال کرکے بہترین اور بدترین جمہوری ممالک اور آمرانہ اور استبدادی ریاستوں کی فہرست تیار کی۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اِس فہرست میں بہترین جمہوری ملکوں کے درجے میں ایک بھی مسلم ملک نہیں۔ پہلا مسلم ملک جو اس فہرست میں شامل ہے وہ ملائشیا ہے جو 39ویں نمبر پر ہے اور اسے بھی ’ناقص جمہوریت‘ کے درجے میں ڈالا گیاہے۔اور یہ بات بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ59 استبدادی ممالک کی فہرست میں مسلم ملک آگے پیچھے جگ مگ کر رہے ہیں۔ اب اگر ہم اِس مفروضے کو درست مان لیں کہ عدم جمہوریت کی وجہ سے مسلم ممالک تنزلی کا شکار ہیں تو پھر چین ہمارے سامنے ایک دیو کی طرح کھڑا ہو جاتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ اگر جمہوریت ہی ترقی کی ضامن ہے تو پھر مجھے کس خانے میں فِٹ کرو گے؟ یہیں سے وہ بحث جنم لیتی ہے جس کا آج تک کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکل سکا کہ فرد کی آزادی زیادہ ضروری ہے یا اُس کی خوشحالی۔ کسی بھی نظامِ حکومت کو اگراِس کسوٹی پر پرکھا جائے کہ عوام کی اکثریت کس قدر خوشحال ہے تو کیا یہ بات کافی ہوگی؟ خوشحالی کی تعریف کیا ہے؟ کیا اِس سے مراد محض مالی آسودگی ہے؟ اگر کسی ریاست میں اکثریت آسودہ حال ہو جائے تو کیا اُس ریاست کواپنے شہریوں کے خلاف استبدادی ہتھکنڈے آزمانےکا جواز مل ہو جاتا ہے؟ ایک ایسا ملک جو معاشی ترقی کے ریکارڈ توڑ رہا ہو،جہاں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے باہر نکالے جا چکے ہوں، جہاں مڈل کلاس خوشحال ہو اور دنیا اُس ملک کی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہو، اُسی ملک میں اگرشہری آزادیوں پر پابندی ہو، آزاد میڈیا کا تصور نہ ہو، انٹر نیٹ کنٹرول کیا جاتا ہو، یک جماعتی سیاسی نظام ہو، قانون سب پر یکساں لاگو نہ ہوتا ہو، عدالتیں بھی حکومت کی مرضی اور منشا سے فیصلے سنانے پر مجبور ہوں،آزاد ٹریڈ یونین نہ ہو،اقلیتوں کے لیے زمین تنگ ہواور ریاست تشدد کا استعمال کرتی ہوتو کیا ایک آزاد انسان ایسے ملک میں رہنے کو ترجیح دے گا یا وہ اُس ملک میں ہجرت کرنا پسند کرے گا جہاں اسے دو روٹیاں کم مل جائیں مگر یہ خوف نہ ہو کہ اٹھا لیا جائے گا!
ہم اپنے بنیادی سوال پر واپس آتے ہیں۔ مسلمان ممالک کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو وہی جس پر وہ گامزن ہیں اور دوسرا وہ جو ترقی یافتہ مغربی ممالک نے اپنایا۔دوسرا راستہ اپنانے کے لیے ضروری ہے کہ گاڑی جمہوریت کی موٹر وے پر ڈالی جائے۔ یہ بنیادی شرط ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ اپنی رفتارتو 120 کلومیٹر رکھنا چاہتے ہیں مگر راستہ وہ چُن لیں جہاں گاڑی 40سے اوپر نہ جا سکے۔مسلم ممالک کا مسئلہ یہ ہےکہ وہ یونیورسٹیاں تو بنا رہے ہیں مگر سوچنے کی آزادی نہیں دے رہے۔نشاۃِثانیہ کا اصل ثمر وہ آزادی تھی جس پر یورپ آج بھی سمجھوتہ نہیں کرتا۔مسلم ممالک کی بد قسمتی یہ ہے کہ نہ وہ چین کا ماڈل اپنا سکے اور نہ یورپ کا۔رہا اپنا اسلامی ماڈل، اُس کی تو ہم تشکیل ہی نہیں کر پائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کے جدید دور میں گورننس کا اسلامی ماڈل تشکیل دیا جا سکتا ہے، کیا ماضی میں اِس کی سنجیدہ کوشش کی گئی اورکیا یہ کوشش کامیاب ہوئی؟ اِن سوالات کا جواب پھر کبھی!