نیوٹن، بائبل اور سائنس
یاسر پیرذادہ
جنوری 16۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
اگر آپ ٹرنٹی کالج،کیمبرج جائیں تو سب سے پہلا خیال آپ کے دماغ میں یہ آئے گا کہ وہ درخت دیکھا جائے جس کے تنے کے ساتھ بیٹھ کر نیوٹن کو خیال آیا تھا کہ اُس کے سر پر گرنے والا سیب نیچے آنے کی بجائے اوپر کی طرف کیوں نہیں گیا۔ آج سے تقریباً چار سال پہلے جب مجھے اِس کالج کی یاترا کاموقع ملا تھا تو میں نے کالج کے دروازے پر موجود دربان سے اسی درخت کے بارے میں سوال کیا تھا، وہ دربان شاید روزانہ سینکڑوں لوگوں کو یہی بتاتا تھا اِس لیے اُس نے بیزاری سے سامنے اشارہ کردیا، وہاں ایک درخت موجود تھا جسے دیکھ کر ہمیں یہ تو نہیں لگا کہ یہ چار سو سال پرانا ہوگا مگر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آج نیوٹن کی یاد اِس لیے آئی کہ جنوری کی چار تاریخ کو اِس جینئس کا یوم ولادت ہوتا ہے سو اِس اعتبار سے ہم جنوری میں عشرہ نیوٹن منا کر اسے خراج عقیدت پیش کر سکتے ہیں۔
نیوٹن کے بارے میں ہم زیادہ تر وہی جانتے ہیں جو اسکول میں سائنس کی کتابوں میں بتایا جاتا ہےجیسے کہ نیوٹن کے تین قوانین حرکت جو اُس نے دریافت کیے اور جس کی بنیاد پر جدید فزکس کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ ویسے تو یہ قوانین حرکت کافی سادہ اور آسان لگتے ہیں مگر حقیقت میں اِن کے پیچھے نہایت پیچیدہ اور گنجلک سائنسی کلیے کارفرما ہیں جنہیں نیوٹن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Mathematical Principals of Natural Philosophy میں بیان کیا ہے۔ اطالوی ماہر طبعیات’ کارلو ریوولی‘ کے مطابق نیوٹن لکھتا ہے کہ فرض کریں مشتری کی طرح زمین کے بھی کئی چاند سر آسمان ہوتے اور اُن میں سے ایک ’چھوٹا چاند‘ اتنا قریب ہوتا کہ زمین کی بلند ترین چوٹی کے بالکل پاس رہ کر زمین کے گرد گھومتا رہتا۔ اُس زمانے میں اصل چاند کے مدار کا نصف قطر معلوم تھا، یہ کام ایک یونانی سائنس دان کر چکا تھا، اور زمین کا نصف قطر بھی اُس وقت دریافت ہو چکا تھا، سو اِن معلومات کی بنیاد پر نیوٹن نے چھوٹے چاندکے مدار کے نصف قطر کا بھی حساب لگا لیاجو کہ ظاہر ہے کہ زمین کے نصف قطر کے برابر ہی تھا کیونکہ چھوٹا چاند بالکل زمین کے قریب رہ کر ہی خیالی مدار میں چکر کاٹ رہا تھا۔ اب نیوٹن نے سوچا کہ یہ چھوٹا چاند کتنے وقت میں زمین کے گرد اپنا چکر پورا کرے گا۔ ایک سادہ سا کلیہ لگا کر نیوٹن نے جواب نکالا کہ وہ وقت ایک گھنٹہ اور تیس منٹ ہوگا، یعنی خیالی چھوٹا چاند زمین کے گرد اپنا چکر ڈیڑھ گھنٹے میں پورا کرے گا۔ اگلا سوال یہ تھا کہ ایک شے جو مدار میں گھومتی ہے وہ صراط مستقیم پر نہیں چلتی بلکہ ہر لحظہ اپنی سمت تبدیل کرتی ہے، سمت تبدیل کرنے کے اِس عمل کو ’ایکسلریشن‘ کہتے ہیں، گویا چھوٹا چاند زمین کے مرکز کی طرف جس ایکسلریشن کے ساتھ آئے گا وہ نیوٹن نے حساب نکال کر 9.8m/s/s نکالی اور یہ وہی رفتار تھی جس رفتار سے اشیا زمین کی جانب گرتی ہیں۔ نیوٹن نے اِس یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو قوت اشیا کو زمین کی جانب کھینچی ہے وہی قوت چھوٹے چاند کو اپنے مدار میں رہ کر گھومنے پر مجبور کرتی ہے، اگر یہ قوت نہ ہو تو چھوٹا چاند مدار میں گھومنے کی بجائے سیدھا نکل جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا اصل چاند بھی اسی قوت کی وجہ سے اپنے مدار میں گھومتا ہے، اسی قوت کی وجہ سے مشتری کے تمام چاند اپنے اپنے مدار میں چکر لگاتے ہیں اور یہی وہ قوت ہے جو دیگر اجرام فلکی کو سورج کے گرد گھومنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ قوت نہ ہو تو پورا نظام ہی درہم برہم ہو جائے، یہ قوت آفاقی ہے اور اسی کی وجہ سے ہر شے دوسری شے کی جانب کھنچتی ہے۔
آفاقی قوانین حرکت کی دریافت نیوٹن کے لا تعداد کارناموں میں سے محض ایک کارنامہ ہے۔ اسی نیوٹن نے ریاضی کی ایک نئی شاخ ’کیلکولس‘ بھی ایجاد کی۔ کیلکولس کی دریافت کا دعویٰ اسی زمانے کے مشہور فلسفی اور ریاضی دان ’لائبنیز ‘ کا بھی ہے، لائبنیز غالباً وہ واحد شخص تھا جسے کسی اعتبار سے نیوٹن کا ہم پلہ کہا جا سکتا ہے۔ نیوٹن کوشعر و شاعری، فلسفے اور علم الکلام سے بھی شغف تھا۔ اُس نے انجیل کو سمجھنے کا ایک پورا طریقہ کار مرتب کیا اور بتایاکہ کیسے انجیل میں بیان کردہ معجزات کو سمجھا جا سکتا ہے۔اُس کے خیالات روایتی مذہبی پیشواؤں جیسے نہیں تھے بلکہ وہ مسیحیت کے تثلیث کے عقیدےکا ناقد تھا۔ اپنے یہ خیالات اس نے مشہور فلسفی جان لاک کو لکھ بھیجے جس نے انہیں شائع کرنے کی کوشش کی مگر نیوٹن نے اجازت نہیں دی۔ اسے قدرت کی ستم ظریفی ہی کہیے کہ ٹرنٹی کالج میں پڑھنے والا نیوٹن تثلیث کے ہی عقیدے کے خلاف ہوگیا۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سائنسی اندازمیں سوچنے والے لوگ مذہبی نہیں ہوتے، سائنس کا دلداہ شخص مذہب کا پیروکار نہیں ہو سکتا اور زیادہ تر سائنس دان دہریے ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں اگر پانچ بڑے سائنس دانوں کی کوئی فہرست بنائی جائے تو اُس مختصر سی فہرست میں بھی نیوٹن کا نام شاید سب سے اوپر ہوگا۔ نیوٹن نہ صرف سائنس دان تھا بلکہ علم الکلام کابھی ماہر تھا۔ وہ کائنات کی وسعتوں پر تحقیق بھی کرتا تھا اور خدا کے وجودکے حق میں دلائل بھی رکھتا تھا۔ اپنی کتاب ’آپٹکس‘ میں وہ لکھتا ہے کہ وہ سارا نظم اور خوبصورتی کہاں سے پیدا ہوتی ہے جو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں؟کیا یہ صاف ظاہر نہیں کہ کوئی ہستی ہے جو ذہین اور ہمہ گیرہے اور اِس لامحدود خلا میں موجود ہے۔نیوٹن جیسے سائنس دان کے مذہبی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ مذہب کو نیوٹن کی گواہی کی وجہ سے کوئی تقویت مل گئی ہے، مذہب ایسی گواہیوں سے ماورا ہوتاہے، تاہم اِس سے ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ کوئی شخص بیک وقت سائنسی انداز فکر اور مذہبی عقیدہ دونوں اپنا سکتا ہے، یہ دونوں باتیں باہم متصادم نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ سائنس دان کے مذہبی نظریات سائنسی تحقیق میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔ نیوٹن نے جب یہ دریافت کیا کہ ایک آفاقی کشش ہے جو اجرامِ فلکی کو مدار میں چکر لگانے پر مجبور کرتی ہے تو نیوٹن نے اُس آفاقی کشش کی قوت کا اندازہ ریاضی کی مددسےلگایا نہ کہ انجیل کھول کر دیکھا کہ عہدنامہ عتیق اِس بارے میں کیا کہتا ہے۔ اپنا عقیدہ اپنے پاس رکھ کر بس یہ اتنی سی بات ہمیں بھی سمجھنی ہے۔