پاکستان میں سول سوسائٹی کی موت؟
وجاہت مسعود
جنوری ۲۹۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
عجیب موسم ہے۔ گویا اماوس کی رات میں دھند نے سارے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ادھر ہردے کے بندی خانوں میں دل ایسے خالی ہیں گویا متروکہ گھروں کے دالان۔ اندیشوں کی چاپ تک نہیں۔ ناگزیر سے آشنائی ہو جائے تو وقت کے ظلم سے انکار ممکن نہیں رہتا۔ نا امیدی کی سفاک سل کا بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا تو بے اختیار استاد بڑے غلام علی خان سے رجوع کیا۔ استاد مرحوم کی لے کاری میں پٹیالہ روایت کا ایسا گندھا ہوا رس ہے کہ اکھڑتی سانسوں پر چھتنار پیڑوں کی ٹھنڈک اترتی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی چالیس برس پہلے جنت مکانی کی آواز میں بھیرویں کی ایک بندش سنی تھی۔ نینا مورے ترس رہے۔ تب سویرا سہاون تھا مگر انتظار کی تاب نہیں تھی۔ اب غروب کی گلابی میں برہ کا نراس اتر آیا ہے۔ ایسا نہیں کہ مجھے حکومتوں کے بننے بگڑنے کی فکر ہے۔ اس ملک میں حکومت تو پرایا پنچھی ہوتی ہے، استاد ذوق یاد آ گئے۔ ’’دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے‘‘۔ درویش کی چنتا کے سبب مختلف ہیں۔
جمہوریت محض عوام کی حاکمیت اعلیٰ پر مبنی طرزِ حکومت نہیں، یہ ایک نظامِ اقدار ہے، ایک ثقافت ہے، آئینی اداروں میں ذمہ داری اور جواب دہی کے توازن سے اختیارات کی علیحدگی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ انتظامی اداروں کا متعین دائرہ کار ہوتا ہے۔ جمہوری حکومت وحدانی ہو یا وفاقی، جمہوری اقوام میں حکومت کی عملداری اور ریاست کی قوت نافذہ کے علاوہ بھی بہت سے تمدنی اداروں کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ حکومت کے علاوہ قوم کو بھی جمہوری رنگ میں ڈھالا جا سکے۔ ایسے تمام ادارے جو براہ راست حکومت کے ماتحت نہیں ہوتے بلکہ رضاکارانہ بنیاد پر اجتماعی زندگی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، انہیں سول سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ پیشہ ورانہ تنظیمیں مثلاً ٹریڈ یونین، علمی و ادبی ادارے، بار ایسوسی ایشن، صحافتی تنظیمیں، طلبا تنظیمیں، انسانی حقوق کے کارکن، ایوان صنعت و تجارت، شہری سہولتوں کے لیے آواز اٹھانے والے ادارے، یہ سب سول سوسائٹی کا حصہ ہیں۔ جمہوریت حتمی تجزیے میں ہر قانون پسند شہری کی اجتماعی بہتری سے رضاکارانہ وابستگی کا نام ہے۔ اگر حکومت قومی مفاد کے تعین پر اجارے کا دعویٰ کرے تو جمہوریت کی اساس ختم ہو جاتی ہے۔
سامنے کی مثال تو چارلس ڈیگال کی ہے جس نے سارتر کو فرانس قرار دیتے ہوئے گرفتار کرنے سے انکار کیا تھا۔ کوثر نیازی نے احمد فراز اور کشور ناہید کو برطرف کیا تو بھٹو صاحب نے بحالی کے حکم نامے پر لکھا کہ ایسے قابل قدر افراد کو کیسے ضائع کیا جا سکتا ہے۔ آزادی کے بعد بھارت کی دستور ساز اسمبلی میں قومی زبانوں کے سوال پر بحث کے دوران گووند ولبھ پنت نے اردو زبان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اب بھارت میں اردو کس کی زبان ہے؟ پنڈت نہرو تڑپ کر اٹھے اور کہا، ’اردو میری ماں کی زبان ہے‘۔ گورڈیانو برونو، والٹیئر، روسو، تھامس پین، ایمل ژولا، مارٹن لوتھر کنگ، برٹرینڈ رسل، ہاورڈ زن، حبیب جالب، عاصمہ جہانگیر اور بشپ ٹوٹو، یہ سب سول سوسائٹی ہی تو تھے۔ یہ اضافہ البتہ ضروری ہے کہ سول سوسائٹی متعین سیاسی رائے کے باوجود انتخابی سیاست میں فریق نہیں ہوتی نیز سول سوسائٹی اکثریتی رائے یا مروجہ اقدار کی پابند نہیں، اپنی فہم کی روشنی میں غیر مقبول نقطہ نظر کی حمایت بھی کرتی ہے، اسی لیے پیوستہ مفاد سول سوسائٹی کو ملک دشمن، اخلاق باختہ، غدار اور انتشار پسند وغیرہ قرار دیتا ہے۔
درویش پاکستان کا نصب العین سمجھنے کے لیے بابائے قوم کو سند سمجھتا ہے۔ آزادی کے بعد 17 اگست 1947 کو پہلا اتوار تھا۔ ہولی ٹرنٹی چرچ کراچی نے اس موقع پر خصوصی سروس کا اہتمام کیا تھا۔ قائد نے سرکاری طور پر سروس میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی اور دعا میں شریک ہوئے۔ 15 اگست 1947کو قائد نے یومِ آزادی پر ایک استقبالیہ دیا جس میں پاکستان کانگریس کے سربراہ کرن شنکر راؤ، بھیم سین سچر، سی وزیرانی، جسٹس مہاجن اور ایم ایس ایم شرما سمیت بہت سے لوگ مدعو تھے۔ اس موقع پر قائد کی تجویز پر پاکستان مائینارٹیز ایسوسی ایشن قائم کی گئی جس کا صدر ہیمن داس ودھوانی اور نائب صدر ایم ایس ایم شرما کو چنا گیا۔ اب یہ شرما صاحب کون تھے؟ کراچی گزٹ کے مدیر اور قائد اعظم کے شدید ترین مخالف۔ بھارت جانے کے بعد 1954 میں شرما کی کتاب The peeps into Pakistan شائع ہوئی۔ مصنف نے تمام تر تعصب کے باوجود تسلیم کیا کہ جناح نے انہیں بھارت جانے سے روکتے ہوئے سمجھایا تھا کہ وہ خود پاکستان میں اقلیتوں کے ’محافظ اعلیٰ‘ کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ 15 دسمبر 1947 کو آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے کراچی اجلاس میں قائد نے مسلم لیگ کو جمہوری اور سیکولر جماعت بنانے کے لیے بلا امتیاز مذہب تمام پاکستانیوں پر رکنیت کے دروازے کھولنے کی پرزور تائید کی لیکن سہروردی اور افتخار الدین کے سوا مسلم لیگ کے دیگر رہنمائوں نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ قائد نے تو دستور مدون کرنے کے لیے مجوزہ پینل میں کرن شنکر رائو، عبدالغفار خان اور مولانا آزاد کا نام بھی شامل کیا تھا (مولانا کے لیے بوجوہ اسے ماننا ممکن نہیں تھا۔)
قائد کی وفات کے بعد بھی پاکستان میں سول لبرٹیز یونین کام کرتی رہی جس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور فیض احمد فیض بھی شریک تھے۔ پھر 1958 کا اکتوبر آ گیا۔ عشروں تک سیاست دانوں کو کھدیڑنے کے بعد جسدِ سیاست بے جان ہو گیا تو 80 ء کی دہائی میں شہریوں نے انسانی حقوق کا پرچم اٹھا لیا۔ انسانی حقوق کی جدوجہد سیاست سے فرار نہیں، معروضی حالات میں ایسے سوال اٹھانے کا مورچہ تھا جن سے سیاسی جماعتوں کو بوجوہ گریز تھا۔ سو صاحبانِ اقتدار کے لیے انسانی حقوق گالی اور سول سوسائٹی غداری قرار پائی۔ سول سوسائٹی کو رگیدنے کے لیے بہت سے مجاہد سامنے آئے۔ شیرافگن، نصیر اللہ بابر اور بنیامن رضوی تو سامنے کے نام تھے۔ پس پردہ موسیقی کا سرچشمہ کہیں اور تھا۔ پھر پرویز مشرف آئے اور این جی او کی گالی سول سوسائٹی میں بدل گئی حتیٰ کہ عدلیہ تحریک میں بھی بروئے کار آئی۔ اب حقوق کی آواز اٹھانے کے لیے اکنامک افیئرز ڈویژن سے سند لینا شرط قرار پایا ہے۔ حقوق کی لڑائی نہ تو کامیابی کی ضمانت لے کر لڑی جاتی ہے اور نہ یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے سرکاری سند درکار ہوتی ہے۔ یہ امانت اٹھانے کے لیے آئی اے رحمٰن، عاصمہ جہانگیر اور راشد رحمٰن ہونا بھی ضروری نہیں، ایک شہری کا باشعور ذہن اور حساس دل کافی ہیں۔ قوم زندہ ہے تو سول سوسائٹی کو موت نہیں آ سکتی۔