Shakil Anjum 8

جیلیں: جرائم کا مسکن یا اصلاح کی تربیت گاہیں؟

شکیل انجم
فروری 8،،،2022
بشکریہ روزنامہ جنگ

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی جیلیں ریاست کے اندر ریاستیں ہیں، جہاں ظلم کا قانون اور جبر کے ضابطے لاگو ہیں۔۔۔ جہاں کرپشن اور بدعنوانی کا راج ہے ۔۔۔ جہاں آئین کے اندر درج اور پارلیمان سے منظور ہونے والا کوئی قانون رائج نہیں ہو سکتا۔۔

جہاں طاقتور کا راج ہے اور کمزور تشدد اور بربریت کا شکار ہیں۔۔ جہاں قانون کے ساتھ ساتھ سہولتیں آسودگیاں اور آسائشیں فروخت ہوتی ہیں۔۔۔ جس قیدی کی جتنی حیثیت ہے جیل کے اندر اتنی ہی سہولتیں اور آسائشیں خرید سکتا ہے ۔۔ ان دولت مند خریداروں کی ملاقاتیں جیل سپریٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپریٹنڈنٹس کے دفاتر میں کرائی جاتی ہیں جن کے لئے وقت کی کوئی پابندی نہیں جبکہ کمزور اور غریب قیدیوں کے عزیزواقارب اور ملاقاتی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر ملاقات کی باری کا انتظار کرتے ہیں اور ہرکاروں کو رشوت دے کر بھی ملاقاتیوں سے کھچا کھچ بھرے دیوان میں سلاخوں کے پیچھے سے اپنے قیدیوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔۔ جہاں کان پڑی آوازیں بھی سنائی نہیں دیتیں ۔۔ جہاں بات نہیں ہو سکتی بلکہ قیدی کے عزیز و اقارب صرف دور سے ان کے چہرے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ان ملاقاتوں میں دور دراز علاقوں سے آئی ہوئی ایسی بے شمار مائیں، عمر رسیدہ عورتیں اور مرد شامل ہوتے ہیں جو مدتوں اپنے بیٹوں یا عزیزوں سے ملنے اور بات کرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ ۔ لیکن مایوس لوٹ جاتے ہیں یہ غریب قیدی اپنے بوڑھے والدین قرابت داروں سے کسی نہ کسی انداز میں یہی مطالبہ کرتے ہیں انہیں جیل حکام سے پناہ دلائیں اور انہیں جیل کی مصیبتوں اور تشدد سے بچنے کے لئے دو تین لاکھ روپے کا بندوبست کریں تاکہ وہ جیل حکام کی ظلم و بربریت سے بچ کر جیل میں زندہ رہ سکیں۔

یہ کسی افسانے کا ابتدائیہ نہیں اور نہ ہی کوئی من گھڑت کہانی ہے بلکہ شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حال ہی میں قید کاٹ کر رہا ہونے والے دو نوجوانوں کا بیانیہ زیر تحریر ہے۔ ان دونوں نے علیحدہ علیحدہ چشم دید واقعات اور تجربات بیان کئے۔

ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ یہ جیلیں دولتمندوں کے لئے تفریح، عیاشی اور آسائشوں کا مسکن اور جیل کے اندر بیٹھ کر کاروبار کرنے کے محفوظ ٹھکانے ہیں ۔۔ جہاں چوری شدہ گاڑیوں اور اغوا برائے تو ان جیسے گھناؤنے جرائم کی سودے بازی ہوتی ہے۔ جرائم کی دنیا پر راج کرنے والے جیلوں کے اندر بیٹھ کر باہر جرائم کی دنیا پر حکمرانی کرتے ہیں ۔۔ لیکن کمزور اور غریبوں کے لئے یہ جیلیں گوانتانامو بے سے بدتر عقوبت خانے ہیں۔۔

جہاں ان پر ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔۔۔ یہاں تشدد نہ کرنے کا معاوضہ لیا جاتا ہے جو ماہانہ دو دو لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ غریب گھرانوں نے اپنے بچوں کو جیلوں میں صرف زندہ رکھنے کے لیے اپنے گھر فروخت کر دیے۔ زرعی زمینیں اور اپنی عورتوں کے زیورات بیچ دیئے اور تنگدست ہوگئے۔

یہ ایسی منڈیاں ہیں جہاں غریب قیدیوں کی سانسیں بحال رکھنے اور انہیں زندہ رہنے کے بنیادی حق کے لیے رشوت کے طور پر بھاری قیمتیں ادا کرنا پڑتی ہیں اور جیل انتظامیہ یہ رشوت حاصل کرنا اپنا حق تصور کرتی ہے۔۔

پاکستان کی جیلوں میں دہشت گردی، قتل و غارتگری کمزور لوگوں کی زمینوں پر قبضوں، اغوا برائے تاوان، زنا بالجبر اور بچوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کرنا جرائم تصور نہیں کئے جاتے بلکہ غربت اور کمزوری یہاں بڑے جرائم سمجھے جاتے ہیں۔ جو غریب قیدی جیل انتظامیہ کو زندہ رہنے کی قیمت ادا نہیں کر سکتا ،وہ قابل تشدد قرار دیا جاتا ہے۔ اسے کسی نہ کسی بہانے سے تشدد اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی قیدی جیل حکام اور اس کے عملے کی زیادتیوں کے خلاف حکام بالا کو شکایت کرے یا جیل کے دورے پر آئے ہوئے کسی اعلی افسر یا جج کے سامنے اپنی رواداری بیان کرنے کی کوشش کرے، اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔۔۔

خوف کا آسیب جیل کی دیواروں سے پھوٹتا ہے اور پوری جیل کو ہراساں کر دیتا ہے، جب کوئی جیلر یا جیل کا کوئی اہلکار کسی قیدی کو سزا دینے کا حکم دیتا ہے ۔۔۔ حال ہی میں پیش آنے والا واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ جیل حکام کے خلاف زبان کھولنے والے قیدی کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔۔یہ واقعہ روزنامہ جنگ میں بھی شائع ہوا جس میں بھکر جیل میں بند ایک قیدی عرفان اقبال نے جیل حکام کے غیر قانونی اقدامات کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کو گزشتہ سال مارچ میں ایک خط لکھا جس میں اس نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ کیا۔ 25 سالہ عرفان اقبال نے بکھر جیل سے لکھے گئے اپنے خط میں انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات پنجاب اور جیل حکام پر سنگین الزامات عائد کیے ۔ قیدی نے جسے سزا کے طور پر اڈیالہ جیل سے بکھر جیل منتقل کر دیا تھا انکشاف کیا تھا کہ جیل حکام نے اڈیالہ جیل میں بند اسلام آباد کے بیرسٹر فہد ملک کے قتل میں ملوث مرکزی حوالاتی اور اس کے مبینہ شریک جرم دوست کو غیر قانونی مراعات اور سہولتیں مہیا کر رکھی ہیں۔ اس خط میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ وہ گذشتہ برس مارچ کے مہینے میں اڈیالہ جیل کے ہسپتال میں زیر علاج تھا ۔ 25 مارچ کی صبح پانچ بجے کے قریب جیل خانہ جات کے تین اعلی افیسرز کی نگرانی میں تلاشی لی گئی، اس دوران غیرقانونی چیز برآمد نہ ہونے پر انہوں نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور ایک حوالاتی پر حملہ کرنے اور تشدد کرنے کے واقعے میں غلط طور پر ملوث کرتے ہوئے بھکر جیل منتقل کر دیا۔ عرفان اقبال نے اپنے خط میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ بھکر جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا اور شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس شکایت پر تحقیقات کا حکم دیا تھا ۔ اس کے نتائج کے حوالے سے علم نہیں ہو سکا لیکن گزشتہ دنوں عرفان اقبال کو دس ماہ سے زائد مدت تک بکھر جیل میں رکھنے کے بعد اچانک اڈیالہ جیل واپس بھیج دیا گیا۔ یہاں اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اب اس کی چیخیں اڈیالہ جیل کی دیواروں سے باہر نہیں آ سکیں گی یا گنبد کی آواز کی طرح وہیں دب جائیں گی؟

حال ہی میں رہائی پانے والے دوسرے نوجوان کا کہنا تھا کہ جیلوں کہ اندر ہر قسم کی منشیات کھلے عام فروخت ہوتی ہیں۔۔ شراب، چرس، ہیروئن، آئیس، کوکین اور اس نوعیت کی منشیات جیل کے عملے اور اور نمبر داروں کے ذریعے ایک اشارے پر دستیاب ہوتی ہیں۔ یہاں کوئی قیدی اپنے جرائم پر شرمندہ نہیں ہوتا بلکہ فخر محسوس کرتا ہے ۔۔ کیونکہ یہاں اخلاقیات کے لئے نہیں جرائم پر مختلف طریقوں سے عبور اور مہارت حاصل کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ جیل کے اندر بھی جرائم کے مختلف گروہوں کی تشکیل ہوتی ہے یہ گروہ جیلوں کے اندر بڑے بڑے مجرموں کے کنٹرول میں باہر کی دنیا میں وارداتیں کرتے ہیں۔ رہائی پانے والے اس شخص نے بتایا کہ یہاں کم عمر نوجوان قیدیوں یا حوالاتیوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ بھی بلا روک ٹوک کاری ہے۔۔ اس دھندے میں جیل کے عملے کے علاوہ نمبردار اور پرانے قیدی ملوث ہوتے ہیں۔

قیدی اور حوالاتی ایک جانے اور انجانے خوف کا شکار رہتے ہیں۔۔ جیل کے نمبردار اور اہلکار اس انجانے خوف کو قائم رکھنے اور اس کی شدت میں اضافے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔ تاہم کمزور اور غریب قیدیوں سے زیادہ سے زیادہ بھتہ حاصل کرنے میں آسانی ہو۔۔ جیل کے نمبرداروں اور اہلکاروں نے مختلف جرائم اور سزاؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریٹ مقرر کررکھے ہیں۔۔ قیدیوں سے ماہانہ بھتے کی بھاری رقم حاصل کر کے اوپر سے نیچے تک مقررہ شرح کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے۔ بھتہ نہ دینے والے غریب اور کمزور قیدیوں کو سرعام شدید تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ غریب قیدی عبرت حاصل کریں اور بھتوں کی باقاعدہ ادائیگی کا سلسلہ شروع کریں اور بھتہ دینے سے انکار کرنے والوں کو جسمانی تشدد کے ساتھ ساتھ سخت مشقت کی سزائیں دینے کے علاوہ قصوری چکی میں بند کر دیا جاتا ہے۔

رہائی پانے والے قیدی نے دعویٰ کیا ہے کہ جیل سپریٹنڈنٹ اور اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے نام پر سالانہ کروڑوں روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ جیل کا عملہ حوالاتیوں سے ماہانہ دو ہزار سے پانچ ہزار روپے کے مقررہ ریٹ کے مطابق بھتہ وصول کرتا ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کی تلاشی نہ لینے کی قیمت بھی پانچ ہزار روپے اور پہرے کے ایک ہزار روپے وصول کیے جاتے ہیں۔۔ تشدد کا نشانہ بن کر شدید زخمی ہوجانے والے قیدی کو جیل ہسپتال کی ملی بھگت سے سرکاری ہسپتال میں منتقل کرنے کے بجائے اصل میڈیکل رپورٹ جاری نہیں کی جاتی بلکہ اس کے خلاف خود کشی کے الزام میں مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیل ہسپتال میں بڑے سمگلروں، بد نام منشیات فروشوں اور سنگین جرائم میں ملوث قیدیوں کو بیمار ظاہر کر کے داخل کر دیا جاتا ہے۔ اس سہولت کے عوض ان سے لاکھوں روپے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ جبکہ کہ اصل بیماریوں کو ڈسپرین کی ایک گولی دے کر روانہ کر دیا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جیل ہسپتال کو ادویات اور علاج کی مد میں ملنے والے فنڈز ہسپتال کے عملے اور جیل انتظامیہ کے ملازمین آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جبکہ علاج کی سہولتیں مہیا نہ کرنے کی وجہ سے مہلک بیماریوں میں مبتلا قیدی ناقابل علاج حد تک پہنچ جاتے ہیں اور مرنے سے پہلے انہیں سرکاری ہسپتالوں میں شفٹ کر دیا جاتا ہے۔

یہ شکایات بھی موصول ہوئی ہیں کہ جیل انتظامیہ کے ٹاؤٹ سارا دن جیل کے باہر چائے کھانے کے کھوکھوں پر گھومتے رہتے ہیں جو قیدیوں کے ملاقاتیوں کو ان کے قیدیوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے سودے بازی کرتے ہیں ۔ مختلف درجات کے قیدیوں سے علیحدہ اور بالمشافہ ملاقات کرانے کی علیحدہ علیحدہ قیمت مقرر ہیں۔۔ A کلاس کی فی گھنٹہ علیحدہ اور بالمشافہ ملاقات کی قیمت 5 ہزار روپے مقرر ہے۔ جبکہ B کلاس ملاقاتوں کے لیے دو ہزار سے تین ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے جبکہ دہشتگردوں سمگلروں اور سنگین مقدمات میں پابند سلاسل قیدیوں کے لیے ایک گھنٹے تک علیحدہ اور بالمشافہ ملاقات کرنے کا معاوضہ 10 ہزار روپے مقرر ہے۔

جیلوں میں قائم جابرانہ نظام میں ایک بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جیلوں میں بند قیدیوں سے باہر بیٹھے ان کے دشمن جیلوں کے اندر سنگین تشدد کے ذریعے انتقام لے سکتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز انکشاف کسی قیدی کی زبانی سننے میں آئی ہے کہ باہر بیٹھے دشمن جیل انتظامیہ سے سودے بازی کر کے قیدی دشمن کو کو قصوری چکی میں بند کراتے ہیں اور جیل میں اپنے بندوں سے جیل اہلکاروں اور نمبرداروں کے ذریعے کئی کئی روز سنگین جسمانی تشدد کرتے ہیں۔ ان حالات میں کیا جیل کے اندر کوئی قیدی باہر بیٹھے دشمنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے؟ یہ سوال ایسا نہیں جسے نظر انداز کر دیا جائے.. اس مسئلے کا حل صرف عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے یا پھر جیل خانہ جات کے ان حکام کے پاس ہے جن کی زیرنگرانی قائم جیل انتظامیہ جیل کے قوانین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے اور معاشرے بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔۔۔ کیا جیل قوانین میں قیدی کو اس کے جرائم سے شرمسار کرنے آئیندہ جرم سے توبہ کرنے کے لیے تعلیم اور تربیت کا باب شامل نہیں ہے یا اسے جرائم پیشہ بنانے یا اسے مزید گمراہی کے راستے میں ڈالنا جیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہے

یہی وجہ ہے کہ جرائم مافیا اور انڈرورلڈ طاقتور ہو رہے ہیں اور معاشرے پر راج کر رہے ہیں۔۔ اس سلسلے میں عدلیہ کو قیدیوں کی نہیں بلکہ جیل حکام اور اہلکاروں کی اصلاح اور تربیت کی جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ معاشرہ کو مکمل تباہی سے بچایا جا سکتا ہے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.