Saudia Qureshi 18

کس دیوار سے سر پھوڑا جائے۔۔؟

سعیدہ قریشی
فروری ۱۸۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲نیوز 

یں اپنے موضوعات زندگی سے کشید کرتی اور ایک عام آدمی کی زندگی کو موضوع بناتی ہوں۔ایک عام پاکستانی کی زندگی اور اس کی مشکلات میرا موضوع ہیں۔ پھر غریب وطن کی زندگی جو اپنے جیون کا کل سرمایہ پیٹ بھر روٹی کھانے کی تگ ودو میں لگا دیتے ہیں۔ سانس کا رشتہ برقرار رہتا ہے لیکن اس زندگی میں وہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے تفریح نہیں کرسکتے گوشت اور پھل افورڑ نہیں کرسکتے۔ غریب طبقہ اپنی آمدنی کا ساٹھ ستر فیصد اپنے کھانے پر لگاتا ہے پھر بھی پوری نہیں پڑتی۔زندگی کے دوسرے معاملات کے لیے ان کی جیبوں میں کچھ نہیں بچتا۔معاشرے کے اثر ورسوخ رکھنے والے طبقے سیاستدانوں اور ہر قسم کی اشرافیہ کی زندگیوں سے جڑے ہوئے” اونچے درجے” کے مسائل میرے کالموں میں کم جگہ پاتے ہیں۔جانتی ہوں میرے ملک کا سیاسی معاشرتی عدالتی صحافتی نظام ملک کی سیاسی کاروباری صحافتی اور خاکی اشرافیہ کی خدمت اقدس میں ان کے ایک اشارے کا منتظر ہے۔انہیں ہم جیسے سے قلم کاروں کے بیکار لفظوں کی ضرورت نہیں۔علی عباس جلال پوری کی کتاب تاریخ کا نیا موڑ میں ایک یونانی مفکر کے خیالات پڑھ کر لگا کہ جیسے ہمارے ہی سیاسی اور معاشی نظام پر تبصرہ کیا گیا ہو۔”طاقت وروں کے مفاد کا نام انصاف ہے۔یعنی ملک کا طاقتور طبقہ جو قانون بناتا ہے اس کا بنیادی مقصد ان کے ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔” لیو ٹالسٹائی نے اس کی تشریح کچھ یوں کی۔قانون کا مقصد عدالت و انصاف کا قیام نہیں طبقاتی مفادات کا تحفظ ہے برسر اقتدار طبقہ موجودہ صورتحال کو اپنے مفاد کی خاطر جوں کا توں رکھنے کے لیے قانون سے آ لہ کار کا کام لیتا ہے۔جو لوگ عام سطح سے بلند تر ہو کر سوچتے ہیں اور موجودہ صورتحال کو بدل دینے کی کوشش کرتے ہیں انہیں سیاسی مجرم کہا جاتا ہے ” ان خیالات کے آئینے میں ہم اپنے ملک کے طرز سیاست اور طرز معاشرت کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔لگتا یہی ہے کہ آئین قانون حکمران حزب مخالف میڈیا عدالتیں غرض ریاست کے تمام اہم ستون مل کر طاقتور اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کرتے ہیں۔جو ان کے مفادات پر آواز اٹھاتا ہے یا سچ بولتا ہے اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے اس کو دھمکایا جاتا ہے ریاستی مشینری کو اس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اس ملک میں اشرافیہ کا آپس میں گٹھ جوڑ نہ ہوتا تو ملک کا 40 فیصد طبقہ معاشی اور سماجی طور پر اتنا بدحال نہ ہوتا۔اس ملک کے سیاسی اور سماجی نظام کے تانے بانے میں بے وسیلہ غریب شخص کی کوئی عزت نہیں عدالتیں تھانے سرکاری دفاتر میں ایک عام آدمی ذلیل و خوار ہوتا ہے۔یہاں تو عام آدمی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ روٹی کا پیدا کردیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے دوسرے حقوق کا سوال نہ کرے۔ جس ملک کی آبادی پچاس ساٹھ فیصد طبقہ غربت زدہ ہو وہاں حکومت وقت ایسی بے حس ہو کہ بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی ختم کردے ٹیکسوں کی بھرمار کر دے غریب کو ماچس کی ایک ڈبی خریدنے پر بھی ٹیکس دینا پڑے غریب کے لیے پیٹ بھرنے کا واحد بڑا ذریعہ روٹی ہے جو مسلسل مہنگی ہورہی ہے۔پچھلے تین سالوں میں ہر چند ہفتوں کے بعد پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے بہت سی فوڈ آئٹمز پر سبسڈی واپس لے لی دواؤں پر سبسڈی ختم کردی گئی۔اس سے مسلسل مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے جو سبسڈائزڈ چیزیں عوام کو مل رہی تھی،اب ان کی قیمت انہیں اپنی جیب سے ادا کرنی پڑ رہی ہے۔عام آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنانے کے ہر حربے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے نورتن اس مشکل کا حل بھی انوکھے انداز میں پیش کرتے ہیں ۔چینی کی قیمتیں بڑھ گئیں چینی کم کھائیں۔آٹا مزید مہنگا ہو چکا ہے تو روٹی کم کردیں بلکہ روٹی کھانے کی کیا ضرورت ہے ہوا پر گزارا کریں۔گھی ساڑھے چار سو روپے ہوچکا ہے تو گھی کا استعمال کھانے میں کم کردیں اس سے بیماریاں ہوتی ہیں۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہوئے تاریخی بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا۔کپتان سرکار کی اس تازہ ترین عوامی خدمت کے بعد یہ بیان ہمارے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر شبلی فراز کی طرف سے آیا ہے کہ جہاں تک ہوسکے کم سے کم پٹرول استمعال کریں۔سخت وقت میں زندگی نارمل نہیں رہ سکتی ہے،حکومت کس کس چیز کو سبسڈائز کرے۔تربیت کا کوئی نظام موجود ہو تو سائنس کے وزیر کو بٹھا کر بریفنگ دی جائے کہ پیٹرول کی قیمت بڑھانے کے ساتھ ہی زندگی کی ہر شے اس غریب کے لیے بھی مہنگی ہو جاتی جس کا پٹرول کی خریدوفروخت سے کوئی لینا دینا نہیںہوتا۔جس روز پٹرول کی قیمت بڑھنے کا اعلان ہو اس سے اگلی صبح دودھ دہی والا بھی قیمت بڑھا کر آپ کو بتائے گا۔آٹا دالیں گھی چینی چاول چائے کی پتی دوائی پھل گوشت پہلے ہی اسی فیصد عام کی قوت خرید سے باہر چلے گئے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا ہے جسے پٹرول کی قیمت بڑھنے اور اس سے جڑی ہر شے مہنگی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایوانوں میں بیٹھے سیاستدان بھی اس طبقے سے ہیں مہنگائی جن کا مسئلہ نہیں۔مڈل کلاس لوئر مڈل کلاس۔تنخواہ دار سفید پوش طبقہ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔سرکار نے اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں چند فیصد کا اضافی کیا بھی تو مہنگائی سوفیصد کے حساب سے بڑھی۔کروڑوں افراد پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے ہیں یہ پرائیویٹ ادارے ملازمیں کااستحصا ل کرتے ہیں۔برسوں ان کی تنخواہوں میں ایک روپے کا اضافہ نہیں ہوتا،اس حوالے سے کوئی قانون سازی کسی حکومت نے کبھی نہیں کہ کی پرائیویٹ ادارے بھی اپنے مہنگائی کے حساب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور حکومت وقت کے شہ دماغوں کے سر پر ٹنوں کے حساب سے بے حسی کی برف پڑی ہے۔ سمجھ سے باہر ہے ،کونسی زنجیر ہلائی جائے۔۔؟ کس دیوار سے سر پھوڑا جائے ؟

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.