شدت پسند تنظیمیں اور انتخابی سیاست
سرور باری
جنوری 11۔۔۔2022
روزنامہ 92 نیمیں
اگر آپ نام نہاد جہادی تنظیموں کی اصلیت کے بارے میں وہمے کا شکار ہیں تو ندیم شاہ کی کتاب ضرور پڑھیں جس میں و ہ بنیاد پرستی کے تقریباً تمام بنیادی عوامل ( سیاسی، معاشی اور مذہبی) کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔جنوبی پنجاب میں بنیاد پرستی کی وجوہات پر دو سال پہلے لکھی گئی انکی اس کتاب میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کہ کس طرح مختلف عام انتخابات میں جہادیوں کی حمایت کو ان کے سہولت کار اور سرپرست ووٹ بینک میں تبدیل کر رہے ہیں۔ندیم شاہ کی کتاب اس خطے کی افسردہ کہانی بھی ہے ۔ انہوں نے خطے کے بارے میں حکومتوں کی متواترامتیازی پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے درمیان تعلیم، صحت، صفائی ستھرائی اور بنیادی ڈھانچے کی سکیموں کے لیے مختص فنڈز کا موازنہ فراہم کرتے ہیں اور یہ کہ کس طرح دائمی امتیاز کے نتیجے میں جنوبی پنجاب کا خطہ انتہائی غربت، عدم مساوات اور غذائی قلت سمیت متعدد محرومیوں کا شکار ہے۔ ثبوت کے طور پر وہ متعدد اور معتبر اعدادوشمار، رپورٹوں، سرکاری ریکارڈ اور بیانات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ندیم شاہ کا کہنا ہے (جو کہ ایک غالب بیانیہ بھی ہے) کہ ایساہرگزنہ ہوتا اگر ریاست تمام بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرتی۔ انکا استدلال سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ اس پر مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بنیاد پرستی کی جڑیں مقامی ہونے کا بہت زیادہ امکان ہے لیکن ان کی جدلیات کا نہیں، جوعالمی معلوم ہوتے ہیں۔ نام نہاد اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی کہانی کو عالمی اور مقامی طور پر انتہائی زوال پذیر اور متعصب قوتوں کے ذریعے فروغ دینے میں مغرب کی سب سے زیادہ سیکولر اور لبرل ریاستوں کے کردار کو جانچے بغیر پوری طرح سے معاملہ سمجھا نہیں جاسکتا۔ 1985 میں افغان مجاہدین کے ایک وفد سے ملاقات کرتے ہوئے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کہا:”یہ ہمارے بھائی ہیں۔یہ آزادی کے جنگجو ہیں۔ ہم ان کے مقروض ہیں اور انکی مدد کرنا ہمارا فرض بنتا ہے۔ میں نے ان حریت پسندوں سے بات کی ہے۔ انکی حقیقت حال کا آپ کو پتہ ہے کہ وہ کون ہیں اور کس سے کیوں لڑ رہے ہیں۔ اخلاقی طور پر وہ ہمارے ملک کے بانیوں کے ہم پلہ ہیں”۔واشنگٹن پوسٹ سمیت معتبر ذرائع نے23 مارچ 2002 کودرج ذیل حقائق رپورٹ کیے : ‘امریکہ نے افغان اسکول کے بچوں کو نصابی کتب فراہم کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کیے جو جہاد کے تذکرے اور بندوقوں، گولیوں، فوجیوں اور بارودی سرنگوں کی تصویروں سے بھری ہوئی تھیں۔اس وقت سے یہ کتابیں افغان سکول سسٹم کے بنیادی نصاب کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ یہاں تک کہ طالبان نے بھی امریکہ کی تیار کردہ کتابیں استعمال کیں۔ سوویت افغان جنگ سے پہلے افغانستان میں تعلیم زیادہ تر سیکولر تھی۔ امریکہ نے سیکولر تعلیم کو تباہ کر دیا۔ سی آئی اے کے زیر اہتمام دینی مدارس کی تعداد 1980 میں 2500 سے بڑھ کر 39,000 تک پہنچ گئی۔ اسی عرصے میں نہ صرف پاک افغان سرحدی علاقوں بلکہ جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھی دینی مدارس کی تعداد بڑھ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے مدرسے ایک ہی مذہبی رہنما چلا رہے تھے۔ انہیں سعودی اور عرب لیڈروں سے بھاری فنڈنگ ملی۔ افغانستان سے سوویت یونین کی افواج کے نکلنے سے مدارس ختم ہونے والے نہیں تھے۔ جہادی لیڈروں اور ان کے سرپرستوں کو اپنے پائوں جمانے کے لیے جگہ مل گئی۔ پاکستان اور افغانستان عالمی جہاد کا مرکز بن گئے۔ ضیاء الحق کی باقیات جہاد اور اسلامائزیشن کے نام پر حکومت میں آگئیں۔ یہاں قومی سطح کی پارٹیوں کی انتخابی سیاست اور ان کی موقع پرستی کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ضیاء کی موت کے بعد، اسٹیبلشمنٹ انتخابی اتحاد بنانے میں دائیں بازو کی جماعتوں اور انتہا پسند گروہوں کی مدد کرتی رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قومی سطح کی سیکولر اور ترقی پسند جماعتیں ان اتحادوں میں شامل ہو کر اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے انتہا پسند گروہوں کی مدد کرتی رہی ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کا درج ذیل بیان بہت کچھ بتاتا ہے:”ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جن لوگوں سے ہم آج لڑ رہے ہیںہم نے انہیں بیس سال پہلے فنڈ دیا تھا… اور ہم نے ایسا کیا کیونکہ ہم سوویت یونین کے خلاف جدو جہد میں شریک کار تھے”۔(عالمی تحقیق یکم جون 2013)۔ پاکستان میں جمہوری قوتوں کی بڑھتی ہوئی رفتار کو روکنے کے لیے ضیا الحق نے وہی حکمت عملی اختیا ر کی اور انہیں کرداروں سے کام لیا۔ وہ ایک انتہا پسند اور جمہوریت مخالف تنظیم کو میدان میں لائے جس نے بعد میں افغانستان اور پاکستان، دونوں میں، طالبان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ سندھ میں اس نے تنگ ذہن قوم پرست اور فسطائی گروہوں کی سرپرستی کی۔خصوصاً ان علاقوں میں جہاں غربت اور عدم مساوات بہت زیادہ تھی۔ ندیم شاہ سرائیکی بیلٹ کے مختلف حلقوں میں ان کے ووٹ بینک کے اعدادوشمار فراہم کر کے شدت پسندگروہوں کی موجودگی کا ثبوت بڑی فصاحت سے بیان کرتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب کو مذہبی بنیاد پرستی اور سرائیکی عوام کی ترقی سے محرومی کی بنیادی وجوہات کو سمجھنے تک محدود نہیں رکھتے بلکہ آگے بڑھنے کا راستہ بھی تجویز کرتے ہیں- خود ارادیت۔ اگرچہ سرائیکی خطے کے لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کبھی انتہا پسندانہ موقف اختیار نہیں کیا، لیکن ان کے صبر اور برداشت کا احترام کیا جانا چاہیے۔