سال نو کی امنگیں
سعدیہ قریشی
جنوری 2۔۔۔2022
روزنامہ 92 نیوز
نئے سال کی دوسری صبح آپ میری تحریر کو پڑھ رہے ہیں، جب سے کالم لکھنا شروع کیا ہے ،سال نو کے حوالے سے کالم لکھنا روایت ہے۔مانا کہ زندگی یکسانیت سے بھری ہے اور چند ہندسوں کے بدلنے سے کچھ نہیں بدلتا۔جی ہاں بدلتا تو اس وقت بھی کچھ نہیں، جب پوری دنیا آپ کے آس پاس بدل جائے اور آپ خود روش گزشتہ کو بدلنے پر تیار نہ ہوں۔نئے سال کے آنے پر جب محض ہندسے بدلتے ہیں تو بھی مجھے ضرور نئے پن کا احساس ہوتا ہے، اگر آپ اسے میرا بچپنا سمجھ کر زیر لب مسکرا دیں تو مجھے خوشی ہوگی کہ اس بچپنے کو میں نے بڑے جتن سے سنبھال کر رکھا ہے۔ یوں تو عمر رواں ایک ڈھلوان کے سفر پر تیزی سے زندگی کے کاسنی رنگوں کو پیچھے چھوڑتی چلی آرہی ہے اور سعود عثمانی کے اس شعر کی تجسیم ہوچکی ہے : اسی قبا میں بسر اک زمانہ کردیا ہے بدن کو ہم نے پہن کر پرانا کردیا ہے مگر ہم نے بچپن سے وابستہ حیرت اور بے ساختگی کو کسی ایک پوٹلی میں باندھ کر یوں سنبھال رکھا ہے کہ جب زندگی کو بچے کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت پڑے تو دیکھ لیں ۔سو یہ حیرت بھرا تجسس آج بھی تتلی کو اڑتے دیکھ کر اس کے رنگ چرانے کی خواہش کرتا ہے اور پرندوں کی اڑان کے ساتھ اڑان بھرتا ہے، نئے پن کا احساس صرف سال نو پر ہی نہیں ہوتا بلکہ میں تو ہر صبح تازگی اور نئے پن کو تلاشتی ہوں کیونکہ میری یکسانیت سے نہیں بنتی۔ موسموں کے آتے جاتے قافلے اور ان بدلتے موسموں میں صبح و شام کی بجتی گھنٹیاں ہر روز مجھ سے اک نئی سرگوشی کرتی ہیں۔سرما کی یخ بستگی اپنا چولا بدل کر معتدل موسم بہار میں بدل رہی ہو یا تیزی سے لپکتے گرما کے تپش آلود دن ہوں ہر منظر ہر بار نیا نیا سا لگتا ہے۔خزاں کے بعد خالی ٹہنیاں جب بہار کا بور اٹھاتی ہیں، تو دل و جاں میں ایک عجیب گدگداہٹ سی پیدا ہوتی ہے۔کئی بار کے دیکھے گئے منظر بھی نئے سے لگتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ بدلتے موسموں کی سرشاریوں میں کبھی یکسانیت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ضرور ہوتا ہے۔اور اگر میں یہ اعتراف کروں کہ مجھے یکسانیت اوروں کی نسبت زیادہ محسوس ہے تو یہ آپ کو میری زندگی کا کھلا تضاد لگے گا مگر زندگی کے پیرا ڈوکسز(paradoxes) کو۔سمجھنے والے یہ کیفت ضرور سمجھ جائیں گے۔ میں یکسانیت کے اس دائرے کو توڑنے کی کوشش خود کو فطرت کے ساتھ ہم آہنگ کر کے کرتی ہوں ،قدرت کے بنائے ہوئے اس نظام کو دیکھئے جس میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔ہر رات کے بعد نیا سورج طلوع ہوتا ہے صبح سے شام تک دن کیا کیا رنگ بدلتا ہے۔ ابھی سپیدہ سحر ہے اب یہ دوپہر ہے۔اور یہ سہ پہر ہے۔ذرا وقت گزرا تو شام کے سرمئی سائے پھیل رہے۔رات کے سو سو روپ الگ ہیں۔ موسموں کے آنے جانے سے کبھی وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے تو کبھی یہ احساس کہ کتنا وقت ہم بے نام سے بے وقعت کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں،یہ وقت ہمیشہ سے میری obsession رہا ہے۔ لگتا تھا کہ میں وقت کو پکڑنا چاہتی ہوں اس وقت بھی وقت کے ضائع ہونے کا احساس ہوتا تھا جب زندگی ذمہ داریوں سے دور بے فکری کی دہلیز پر سفید اور نیلے یونیفارم میں ملبوس تھی۔اس وقت بھی ایک احساس ذمہ داری مجھ پہ حاوی رہتا۔انہی دنوں کا ذکر ہے کہ اتوار کے میگزین میں میں نے محمد بشیر جمعہ کا ایک شاندار مضمون پڑھا۔یہ مضمون وقت کی اہمیت اور اس کے صحیح استعمال کے بارے میں تھا۔ بشیر جمعہ کا مضمون پڑھ کر یوں لگا کہ جیسے لکھنے والا مجھ سے مخاطب ہو۔ مجھے یاد ہے میں نے اس مضمون کو کاٹ کر اپنے کمرے کے دروازے پر چسپاں کر دیا تھا ،تاکہ آتے جاتے میری نظر اس پر پڑتی رہے۔مضمون کا لب لباب یہ تھا کہ وقت ہی زندگی ہے وقت کو ضائع کرنا اپنی زندگی کو ضائع کرنا ہے۔زندگی کا ہر نیا دن خزانے کی طرح آپ کے ہاتھ آتا ہے۔ اس خزانے کی دیکھ بھال اور اس کا صحیح استعمال آپ کی ذمہ داری ہے وقت اسی انمول خزانے کا نام ہے۔سیلف ہیلپ کتابوں اور زندگی میں روشنی پھیلاتی موٹی ویشنل تحریروں میں ہمیشہ سے میری دلچسپی رہی ہے۔ لیکن سچی بات ہے جو اثر مجھ پر محمد بشیر جمعہ کے اس مضمون کا ہوا وہ آج تک قائم ہے۔اس وقت ابھی موٹیویشنل سپیکروں کی بھرمار نہیں تھی اور نہ ہی سوشل میڈیا کا دور تھا کہ جہاں ہر دوسرا شخص ایک موٹیویشنل لکھاری بنا دوسروں کی اصلاح کرنے پر تلا ہوا ہے ۔ بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے محمد بشیر جمعہ کی اپنی زندگی حیرت انگیز کامیابی کا تسلسل تھی۔اس پر انشاء اللہ کبھی کالم لکھوں گی۔ کراچی کی میمن برادری سے تعلق رکھنے والے محمد بشیر جمعہ پاکستان کے ابتدائی موٹیویشنل لکھاری ہیں۔کامیاب اور ناکام افراد میں بنیادی فرق وقت کی قدر اور اس خزانے کے صحیح استعمال کا ہوتا ہے۔وقت کی قدر کرنے والے دراصل اپنی زندگی کی قدر کر کے اسے تعمیر کرتے ہیں۔ اور وقت ضائع کرنے والے اپنی زندگی کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔اس وقت سوشل میڈیا کی صورت ہمارے پاس وقت ضائع کرنے کا پرکشش ذریعہ موجود ہے۔ سوشل میڈیا کا پروڈکٹو استعمال کیسے کرنا ہے، ہمیں بچوں سے لے بڑوں تک کو اس کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے ،جیسا کہ میں نے آغاز میں لکھا کہ سال نو پر کالم لکھنا میری روایت رہی ہے اس بار ارادہ ہے کہ اپنے نو جوان اور طالب علم قارئین کے لیے کالموں کی ایک سیریز لکھی جائے جس سے ان کی شخصیت کی گرومنگ ہو۔ آج کے کالم کو ایک ابتدائیہ سمجھئے۔ سال نو میں نئی امنگ اور تازگی کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے کوشش کا آغاز کریں۔