حکومت کا مثبت پہلو
سعدللہ شاہ
مارچ ۲۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲نیو
اچھی گزری یہ محبت بھی ہے دھوکہ تو چلو یوں ہی سہی کس قدر تو نے اذیت میں رکھا ہے مجھ کو میں نے تنہائی میں بھی خود سے کوئی بات نہ کی اور پھر کتنی بے رعب نظر آئی بلندی پر بھی۔ آس کی شاخ کہ جو پیڑ سے ٹوٹی نہ جڑی۔ چلئے اس سے ہٹ کر اس بات پر خوشی کا اظہار نہ سہی اطمینان تو ہوتا ہے کہ حکومت نے پٹرول ڈیزل میں دس روپے فی لٹر اور بجلی میں پانچ روپے فی یونٹ کا عارضی ریلیف دیا ہے۔ یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ بجٹ آنے تک ایسے ہی رہے گا۔ بس آپ دعا کریں کہ حکومت اپنے موقف پر قائم رہے وگرنہ محبوب تو گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہوتا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ اس ریلیف کو تکلیف کے ساتھ جوڑ کر بلاول نے کہا ہے کہ مارچ کے دوسرے دن ہی پٹرول دس روپے ستا ہو گیا۔ ظاہر اس وقت حکومت پر مشکل وقت ہے اور یقیناً یہ اسی وقت ٹل سکتا ہے جب آپ عوام کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیںگی۔ انہیں سانس آنے دیا جائے گا۔ اس وقت اپوزیشن پوری طرح عدم اعتماد لانے پر تلی بیٹھی ہے کہ اور حالات بھی ان کے لیے سازگار نظر آتے ہیں۔ بلاول کا مارچ زور و شور سے جاری ہے اور انہوں نے دو اڑھائی درجن مطالبات بھی کئے ہیں۔ ان کو کائونٹر کرنے کے لیے شاہ محمود قریشی بھی سندھ کے حقوق کے لیے نکلے ہیں۔ کتنی پرلطف بات ہے کہ قوتیں آمنے سامنے ہیں۔ ویسے اٹھارویں ترمیم کے بعد تو سندھ کے پاس بہت کچھ تھا: دونوں نہیں ہیں مطمئن دونوں ہیں اک ملال میں وہ ہے کسی خیال میں، میں ہوں کسی خیال میں عمران خان کو کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے اوران کی ٹیم میں شامل ممبران کوئی صلاحیت نہیں رکھتے اور جو صلاحیت رکھتے تھے وہ نظر انداز کر دیئے گئے ۔مٹی سے جڑنا اور پرجوش ہونا ضروری ہے۔ کچھ پی ٹی آئی کے تھنک ٹینک اگر کوئی ہیں توان کی بے حکمتی یاہے کہ کسی نان ایشو کو اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ مثلاً ریحام خان والا معاملہ کب کا دب چکا تھا اور وہ کتاب لکھ کر خود ہی شرمسار تھیں کہ اس کا مال بکا نہیں۔ جب آپ کسی کا نوٹس لیتے ہیں تو آپ اس کی اہمیت کو قبول کرلیتے ہیں۔ ایک پرگرام میں اگر کسی نے مراد سعید پر عمران خان کے حوالے سے گند بکا بھی تھا تو یہ پہلی بار نہیں تھا۔ لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر کیچڑ اچھالنا سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ اس سے بیشتر بھی ن لیگ نے کسی کے خلاف کیا نہیں کیا۔ نصرت بھٹو سے لے کر عمران خان تک۔ مگر سب کچھ وقت نے زائل کر دیا۔ اب بھی ایسا ہی ہونا تھا۔ پھر کیا ضرورت پڑی تھی: ہر طرف ایک شور برپا اور لوگوں کا ہجوم ہم نے گویا شہر سارا اپنی جانب کر لیا تو آج اس نتیجہ میں ریحام خان کراچی میں پریس کانفرنس کرنے کے قابل ہوئی کہ اس کو ہمت مراد سعید کے ہتک عزت کے نوٹس نے دی۔ نوٹس بھی ایک ارب روپے کا مطالبہ بھی دلچسپ کہ وہ غیر مشروط معافی مانگے۔ جناب یہ شرافت کا زمانہ نہیں: فکر انجام کر انجام سے پہلے پہلے دن تو تیرا ہے مگر شام سے پہلے پہلے اور پھر اصل بات وہی جو فراز نے کہی تھی۔ خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کسی کو کچھ بھی کہنے سے منع نہیں کرسکتے۔ آپ یہ قدغن کسی حد تک تو لگا سکتے ہیں مگر حاسدین پر نہیں۔ سعدینے کہا ہے کہ اس شہر میں آپ کیا کریں گے جہاں پتھر بندھے ہوں اور کتے آزاد ہوں۔ اور پھر جہاں کتے کاٹے کی ویکسینیشن دستیاب نہ ہو۔ ہاں آپ اس طرح کے کام کریں جیسے آپ نے نوجوانوں کے لیے تیس ہزار ماہانہ پر انٹرن شپ رکھی ہے مگر اپنے اس منصوبے کی بھی خبر آپ کو رکھنا ہو گی وگرنہ مہنگائی کی طرح نہ ہو جائے کہکم ہونے کے بجائے بڑھتی جائے۔ الگ بات اور مجھے وزیراعظم کی اچھی لگتی ہے کہ وہ جسے چھوتے ہیں اسے سونا بنا دیتے ہیں۔ گویا کہ وہ پارس ہیں۔ اب دیکھئے ناں کہ ریحام بحیثیت سیاستدان پریس کانفرنس کر رہی ہے اور امید رکھتی ہے کہ اسے کوئی سیاسی پارٹی اچھی آفردے کر ساتھ لے لے۔ اس سے اگلی بات میں اور کر وں۔ وہ اگلی مشن پر ہے۔ یہ اگلی میں نے انگریزی والا لکھا ہے۔ ہم تو اپنے ملک کی بقا اور ترقی کے لیے دعا گو ہیں۔ شاید ہمارے اچھے دن آ جائیں۔ ہر بات پر حکومت کی مخالفت بھی تو درست نہیں۔ چلیے روس کے دورے کے حوالے سے جو قدم اٹھایا گیا وہ بالکل درست تھا کہ بیٹھے بٹھائے ایک طے شدہ دورے کو منسوخ کر کے ہم روس کو اللہ واسطے کا دشمن بنا لیتے۔ اس جنگ نے تو میں ایک بات اور سمجھائی کہنواز شریف نے امریکہ کی ساری آفرز ٹھکرا کر ایٹمی معاملے میں کمزوری نہیں دکھائی جبکہ یوکرائن نے آفر قبول کی اور پھر باقی لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ہر کوئی اپنے مفاد میں سوچتا ہے اور سب سے بڑا مفاد اپنی حفاظت ہے۔ اس حوالے سے فوج کسی بھی صورت میں سوچ ہی نہیں سکتی۔ ہم سے غلطیاں بھی ہوئیں خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے کہ ہم اس میں کسی ترغیب میں آئے اور پھر اس کا قائل ہونا پڑا۔ وقت آنے پر نہ تو چھٹا بیڑا پہنچتا ہے اور نہ ساتواں۔ زاہد فخری نے کہا تھا: اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخری کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا آپ اس غزل کا ایک اور شعر دیکھیں جو مجھے بہت پسند ہے: وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا ٭٭٭٭٭