Sad Ullah 1

سیاسی منظر اور آویزش

سعد اللہ شاہ
فروری ۱،،،۲۰۲۲

بشکریہ روزنامہ ۹۲نیو

مری تو اپنی بھی سب وفائیں عجیب سی ہیں محبتوں میں یہ انتہائیں عجیب سی ہیں قبولیت کے تمام رستے کھلے ہیں لیکن مرے لبوں پر سبھی دعائیں عجیب سی ہیں اور ساتھ ایک عجیب خیال آیا کہ میں اپنے منصف سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے سزا دے‘ غریب لوگوں کی سب سزائیں عجیب سی ہیں۔یہ بالکل سچ ہے کہ سب یہی کہتے ہیں کہ اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے ۔اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا سب درست اور سچ کہہ رہے ہیں چلیے یوں کہہ لیں کہ ہمیں ہر معاملے میں سیاست کا گمان کیوں ہوتا ہے۔سب اپنی اپنی جگہ درست بھی ہونگے کہ بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔شاید میں نے مثال غط دے دی‘ بھینس سے زیادہ بھلا مانس جانور شاید ہی کوئی ہو کہ جس کے کٹے کو بھی دودھ سے محروم رکھا جاتا ہے۔کیا کریں مگر عوام کا کہ وہ صرف تماشائی ہے: عجیب طرح سے سوچا ہے زندگی کے لئے کہ زخم زخم میں کھلتا ہوں ہر خوشی کے لئے چلیے آپ کے ذوق کی نذر اس مطلع کا دوسرا شعر بھی لکھ دیتا ہوں وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے۔ کمال یہ ہے کہ ایسا انسان صرف سچی محبت میں سوچتا ہے وگرنہ سیاست میں تو لوگ ملتے ہی چھوڑنے کے لئے ہیں وہی کہ ملنے آئے ہو چھوڑنے کے لئے اس تکلف کی کیا ضرورت تھی مگر آفرین ہے سیاستدانوں پر کہ کئی کئی بار ایک دوسرے کو قبول کر لیتے ہیں بعض تو ہوتے ہی سرکاری گواہوں کی طرح ہیں جس طرح چاہیں ہانک دیں ان کے ماتھے پر کبھی عرق ندامت نہیں دیکھا گیا۔کچھ چراغ ان دنوں زیادہ یہ بھڑک رہے ہیں اسی شعلے کی طرح جسے بجھنا ہوتا ہے مگر یہ شعلہ بھی کہاں ہیں پرندے ہیں کہ موقع آتے ہی چھتری بدل لیتے ہیں موقع نہ بھی ہو تو یہ کبھی بھی لینڈ کر سکتے ہیں۔ سیاست میں شدت آتی جاتی ہے بلاول خاص طور پر بجلیاں گرا رہے ہیں وہ تو جیسے مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔انہوں نے تو جیسے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور وہی ہیں جن کی وجہ سے سلیکٹڈ اور کٹھ پتلی کا لفظ عام ہوا۔ آخر وہ بھٹو کے نواسے ہیں۔بھٹو بھی اس فن کے بادشاہ تھے کہ اگر کسی کو ککڑی کہہ دیا تو وہ سچ مچ ککڑی نظر آنے لگا اور کسی کو آلو کہہ پکارا تو وہ نام اس کے ساتھ چمٹ گیا۔بلاول کا مسئلہ بہرحال پنجاب ہے کہ وہ یہاں سے وہ جواب سننا چاہتے ہیں جو کبھی بھٹو اور بے نظیر کے حصے میں آیا۔خاص طور پر ہمارے ادیب اور دانشور تو اکثریت میں پی پی کے ساتھ ہی ہوا کرتے تھے۔ایک اور مثبت بات اس جماعت کی رہی کہ یہ سرکاری ملازمین کے حق میں ہے اور غریب کی کم از کم بات ضرور سنی جاتی ہے۔خرابی تو اس وقت آئی جب زرداری ٹین پرسنٹ کے نام سے معروف ہوئے اور ان کے نظریاتی کارکن پس پشت چلے گئے۔ اس وقت صورت حال یقینا ن لیگ کے حق میں ہے آپ اس سے اختلاف کرنا بھی چاہیں تو کر سکتے۔ ابھی کل مجھے کھاریاں جانے کا اتفاق ہوا تو میں گوجرانوالہ سے گزرتے ہوئے وہاں کے پل دیکھ رہا تھا میرے ساتھ ڈاکٹر حیدر تھے جو مجھے بتانے لگے کہ یہاں بہت زیادہ کام ہوا اسی لئے یہ سارا علاقہ جس میں کھاریاں بھی شامل ہے۔ یقینا ن لیگ کی خرابیاں اپنی ہیں کہ ان میں بادشاہت آ جاتی ہے۔ان کی ثقافت پیپلز پارٹی سے الگ ہے کہ یہ تو ایم این اے اور ایم پی اے کو بھی نہیں ملتے اور سرکاری ملازمین کو ذاتی ملازم سمجھتے ہیں۔ ان کے تعمیراتی کام صرف لاہور خود بولتے ہیں موجودہ حکومت کے دور میں سڑکیں تک ٹوٹ گئی ہیں اور گند ہی گند آپ کو نظر آتا ہے اور چلے یہ ایک نیا شہر بسانے۔یعنی ایک نیا لاہور۔کسی منچلے نے کہا کہ پہلے پہلے والا لاہور تو سنبھال لیں۔میں تو پریشان ہو گیا کہ یہ بھی نئے پاکستان والا معاملہ ہے کہ لوگ پرانا پاکستان مانگ رہے ہیں۔ عدلیہ کے ساتھ ایک اور طرح کی جنگ چھڑتی نظر آ رہی ہے میری مراد جسٹس فائز عیسیٰ کا کیس ہے جسے پی ڈی ایم تو چارج شیٹ کہہ رہی ہے۔ فواد چودھری نے بھی سچ کہا ہے کہ عدلیہ عالمی درجہ بندی میں اپنی گرتی ساکھ کا جائزہ لے۔ یہاں مجھے ٹرانسپیرنسی رپورٹ کا بھی خیال آیا کہ جو کرپشن کے حوالے سے ہے مگر اس کا جواب تووزیراعظم نے صاف دے دیا کہ کرپشن تو وہ 90دن میں آتے ہی ختم کر چکے تھے۔علی محمد خاں صاحب درست فرماتے ہیں کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ ان کی کرپشن کو حلال قرار دے دیا جائے۔سوال ہے کہ ان کو اسی کرپشن کی پاداش میں تو نکالا گیا وہ پھر آپ نے انہیں پکڑ کر باہر نکال دیا۔پھر کیا کیا آپ نے۔شہزاد اکبر نے پریس کانفرنسوں اور غیر ملکی دوروں پر کروڑوں خرچ کئے وہ عوام کے پیسے تھے۔ وزیراعظم کو ہر صورت میں سرخرو ہونا ہی پڑے گا۔اب کے آپ کو عوام کا سامنا کرنا ہے پہلے تو شفاف اور صاف کردار کے ساتھ ہمارے رول ماڈل تھے اب آپ کا اعمال نامہ بھی لوگوں کے سامنے ہو گا۔جماعت اسلامی کراچی میں تو پیپلز پارٹی کے قریب نظر آئی وہ بے چارے کیا کریں دوسری جانب ایم کیو ایم ہے آخر میں ہمارے دوست عزیز نبیل کا ایک خوبصورت شعر: روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیل روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.