غیر یقینی صورتحال اور امکانات
ایس اے ذاہد
مارچ ۱۱۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
اپوزیشن کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنےکے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں کی طرف سے دعوے جاری ہیں۔ دونوں طرف سے اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کا پلہ بھاری ہے۔ حکومت کی طرف سے کئے جانے والے دعوے دل کو خوش رکھنے کے سوا کچھ نہیں لگتے۔
حکومتی جماعت کے اپنے لوگ بڑی تعداد میں اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ کچھ وزرا بھی اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے اتحادی بھی اپنے معاملات طے کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان گزشتہ دنوں بعض ناراض اراکین اسمبلی سے، جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، ملاقات کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی اتحادی جماعتوں سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا، جن میں وہ مسلم لیگ ق کے قائدین چوہدری برادران سے ملاقات کرنے خود ان کے گھر گئے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادر آباد کراچی بھی خود گئے لیکن دونوں جگہوں سے ان کو حکومت کی حمایت کرنے کی واضح یقین دہانی نہیں کرائی گئی جبکہ جی ڈی اے کے رہنما پیر پگاڑا نے تو ملاقات سے ہی معذرت کر لی۔جہانگیر ترین اور علیم خان کی طرف سے بھی خوشگوار جواب نہیں ملا، پنجاب میں پی ٹی آئی میں ایک اور گروپ بھی سامنے آیا ہے، جس میں14ارکان پنجاب اسمبلی ہیں۔
اس گروپ کی قیادت غضنفر عباس چھینہ کر رہےہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے تقریباً پچاس اراکین اسمبلی حکومت مخالف ہیں اور ان میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔یہ تمام ارکان اور گروپس وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بھی خلاف ہیں اور کھل کر عثمان بزدار کو اس منصب سے ہٹانے پر مصر ہیں۔لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو فی الحال کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
بلوچستان میں بی اے پی کے ایک بڑے دھڑے نے سردار یار محمد رند کی قیادت میں آصف علی زرداری کو ساتھ دینے کی یقین دہانی کرائی ہے جن میں اس وقت تک تین اراکین قومی اسمبلی بھی شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اب تک پانچ اراکین قومی اسمبلی جن کا تعلق بلوچستان سے ہے اور تین مزید اراکین قومی اسمبلی جن کا تعلق کے پی سے ہے، اپوزیشن سے رابطے میں ہیں،اس طرح مجموعی طور پر 20 اراکین قومی اسمبلی کی اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے پا چکے ہیں۔ مبینہ طور پر تین وفاقی وزرا بھی تیار ہیں۔
میاں نواز شریف، جہانگیر ترین اور علیم خان تینوں اس وقت لندن میں موجود ہیں۔ ان کے پہلے سے رابطے ہیں۔ لندن میں ان تینوں کی ملاقات بھی جلد متوقع ہے جس میں اہم اور حتمی فیصلوں کا امکان ہے۔ 20 اراکینِ قومی اسمبلی جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ یا تین، کے پی سے تین اور باقی پنجاب اور کچھ سندھ سے ہیں، اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں، ان کا تعلق حکمران جماعت پی ٹی آئی سےہے۔ البتہ چوہدری برادران نے دیر کر دی ہے، کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ ہوشیاری اور خود اعتمادی نقصان دہ بھی بن جاتی ہے۔
اس لیے چوہدری شجاعت حسین کو خود مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کے پاس جانا پڑا۔ ذرائع کے مطابق چوہدری شجاعت نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ چوہدری برادران کے (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت سے معاملات سلجھانے میں مدد کریں اور یہ بھی کہ چوہدری پرویز الٰہی کو اسپیکر کے عہدے پر برقرار رہنے دیں اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہ لائیں اور وفاق میں دو وزارتیں بھی برقرار رکھیں۔
مسلم لیگ (ق) اپوزیشن کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہے۔ حیرت ہے کہ ایسی گھمبیر صورتحال میں وزیر اعظم نہ صرف پراعتماد ہیں بلکہ اپوزیشن رہنمائوں کو نازیبا الفاظ کے ساتھ یاد کرتے اور للکارتے و دھمکاتے بھی ہیں۔ کیا یہ دیے کا بجھنے سے پہلے ٹمٹمانا ہے؟ گزشتہ روز کراچی میں وزیر اعظم کی موجودگی میں پی ٹی آئی سینیٹ کی نشست ہار گئی۔ حکومت نے ضمنی اور کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں شکست سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔
عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے۔ ادویات سے لیکر دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے لیکن حکومت عوام کی مشکلات سے لاتعلق ہے۔
وزیر اعظم صاحب ہر جگہ اور ہر خطاب میں اپوزیشن پر تبرا بھیجتے اور عوام کو گھبرانا نہیں کا درس دیتے ہیں۔ملک میں امن و امان کی صورتحال پر کوئی توجہ نہیں۔ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے اور کام صرف بیانات اور تقاریر کی حد تک ہے۔ پنجاب میں سابق حکومت کے مکمل یا تکمیل کے قریب منصوبوں پر اپنی تختیاں لگانے کا اعزاز بھی اس حکومت کو حاصل ہے۔ کے پی میں ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے میں بھی بڑی کرپشن سامنے آئی۔ یہی حال پناہ گاہوں اور صحت کارڈ کا بھی ہوا۔
غیر مصدقہ اطلاع ہے کو میاں نواز شریف کسی بھی وقت وطن واپس آ سکتے ہیں۔ مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اب تحریک عدم اعتماد جمع ہو گئی ہے۔ اس لیے آئینی طور پر وہ اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی کھو چکے ہیں۔
پھر پتہ نہیں وزیر اعظم ایسا کون سا دھماکہ کریں گے۔ جس کا ذکر شیخ رشید احمد نے چند دن پہلے کیا تھا۔ یہ بھی سنا ہے کہ کئی وزرا نے مشورہ دیا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کیلئے اسمبلی اجلاس جلد بلایا جائے لیکن اس دن کوئی حکومتی رکن اسمبلی ہال میں نہ جائے صرف ایک رکن وہاں حاضر ہو۔ یہ ایک احمقانہ حرکت ہوگی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم ایک خاص اعلان یا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر اس نازک موقع پر کوئی غلط فیصلہ کیا گیا تو یہ بھی ممکن ہے کہ اس عمل کا ردِعمل سخت اور خطرناک ہو اور شاید پھر حالات کوئی اور مشکل صورت اختیار کر جائیں ویسے بھی بہت کچھ تبدیل ہونا بعید از امکان نہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)