قدرت کیا چاہتی ہے
رضا علی عابدی
دسمبر 31۔۔۔2021
روزنامہ جنگ ا
پرانا برس لاٹھی ٹیک کر اٹھ کھڑا ہوا، اب جانے کو ہے۔ نیا جواں سال برس دہلیز تک آگیا ہے، اندر قدم دھرنے ہی والا ہے۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ کوئی آئے تو قدم لو اور جائے تو دعا دو۔ مگر ہم سخت مخمصے میں ہیں۔ جانے والے کو دعا دیں تو کیوں دیں، وہ ہماری بسی بسائی بستیوں کو اجاڑ کر اور ہنستی کھیلتی آبادیوں کو ویران کر کے جا رہا ہے تو اسے دعا کس بات کی دیں۔ ہماری زندگیوں میں کتنے ہی برس آئے اور گئے۔ مگر جیسا کٹھور یہ برس رہا اور ہمارے کیسے کیسے ہیرے جواہر سمیٹ کر چلتا بنا ایسا برس دعا کا حق دار کب ٹھہرا۔ اس سے تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں:
آیا کرے خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں
اب رہ گئی بات آنے والےکے قدم لینے کی، جی ڈرتا ہے، اندیشے سر اٹھاتے ہیں۔ وسوسے ہمارے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں۔ رہ رہ کر خیال ہوتا ہے کہ اس نئے برس نے بھی دغا دیا تو ہمارا کیا بنے گا۔
ان تمام واہموں سے بے نیاز لوگ ہر طرف سے ایک ہی صدا دے رہے ہیں:نیا سال مبارک ہو، نیا سال مبارک ہو۔ میری مانئے تو یہ صدانہیں ہے۔ یہ دعا ہے یہ تمنا ہے، یہ خواہش ہے کہ خدا کرے آپ کے لئے یہ نیا سال مبارک ہو۔ پہلے کبھی یہ دعا دیتے ہوئے ہم خوش ہوا کرتے تھے مگر اِس برس ایک عجب خیال چٹکیاں لے رہا ہے۔ کہیں ایسا تونہیں ہوا کہ دعائوں میں تاثیر نہیں رہی کہیں قبولیت کی گھڑیاں چلتے چلتے بند تو نہیں ہو گئیں۔ پہلے تو دعائیں اپنا اثر دکھایا کرتی تھیں۔ ہم اپنی اس دعا کو قبول ہوتے بھی دیکھتے۔ سال کے سال اچھے دن آتے۔ زندگیاں بہتر ہوتیں۔ لوگ زیادہ جیتے۔ انسان ترقی پر ترقی کرتا اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ پھر ایک عجب واقعہ ہوا۔ قدرتی آفات نے گھر دیکھ لیا۔ پھر جو سیلاب آئے جو طوفان آئے، زلزلے آئے، آگ بھڑکی۔ سر سبز جنگل سوکھی لکڑی کی طرح دہکنے لگے۔ لق ودق جھیلیں سوکھ گئیں۔ پہاڑوں پر جمی برف پانی پانی ہونے لگی، لوگ اپنا بچائو کرنے لگے تو موت روپ بدل بدل کر آنے لگی۔ طے یہ پایا کہ انسان نے اپنی ہی حماقتوں سے زمین کا درجۂ حرارت بڑھا دیا ہے، زمین گرم ہوتی جارہی ہے اور قدرت کا نظام تلپٹ ہو رہا ہے۔
ابھی یہ سب جاری تھا کہ کہیں سے جان لیوا وبائوں نے سر اٹھایا۔ وبا آندھی اور طوفان کی طرح آئی اور نسلِ انسانی کا صفایا کرنے لگی۔ تب طے پایا کہ مرض کا ٹیکہ ایجاد کیا جائے۔ اس کام میں تو دس برس لگ جاتے ہیں۔ لیکن صورت حال اتنی سنگین تھی کہ سائنس دانوں نے دن دیکھا نہ رات اور نئی وبا کا ٹیکہ بنا کر دم لیا۔ اب مرحلہ تھا ساری دنیا کو ٹیکہ لگانے کا کیونکہ اعلان یہ ہوا کہ جب تک سب محفوظ نہیں ہوں گے، کوئی محفوظ نہ ہو گا۔ یہ عمل جاری ہے لیکن بڑا پریشان کن عمل ہے۔ مجھے ایک عجب خیال ستا رہا ہے اور ستائے جا رہا ہے۔ دنیا کا درجۂ حرارت نیچے لانے کے لئے انسان کو بڑے بڑے قدم اٹھانے ہوں گے۔ جان لیوا بلا کو ٹالنے کے لئے ساری دنیا کو ٹیکہ لگانا ہو گا۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسان اور قدرت کی جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں انسان کیا چاہتا ہے، ہم جانتے ہیں۔ وہ انسانی جانوں کو بچانا چاہتا ہے۔ اب کوئی یہ بتائے کہ اس لڑائی میں قدرت کیا چاہتی ہے؟ اگر یہ سچ ہے کہ قدرت کا کوئی عمل مصلحت سے خالی نہیں ہوتا تو یہ آفات لانے میں کون سی مصلحت اس کے پیش نظر ہے؟ چار لفظوں میں یہ ذرا سا سوال ہے کہ قدرت کیا چاہتی ہے؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کہاں جائیں۔ تاریخ داں تو یہی کہے گا کہ تاریخ کے ورق الٹو پلٹو، کہیں نا کہیں جواب مل جائے گا۔ مگر اس کے لئے زیادہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ وہاں صاف لکھا ہے، دنیا کا کئی مرتبہ صفایا ہو چکا ہے۔ دنیا کئی بار ختم ہو ہو کر دوبارہ زندہ ہوئی ہے۔ کبھی ہماری اسی زمین پر پہاڑ جیسے ڈائنوسار دندناتے پھرتے تھے۔ ان کے بدن بڑے اور دماغ چھوٹے تھے۔ پھر برفانی دور آیا۔ دنیا برف تلے دب گئی۔ پھر پیدا ہوئی تو ایسا سیلاب آیا کہ ساری دنیا ڈوب گئی۔ تاریخ تو کچھ اس قسم کی شہادتیں پیش کرتی ہے۔ وہ لوگ جن سے قدرت گفتگو کرتی ہے وہ بھی کہتے رہے ہیں کہ یہ دنیا بار بار مٹے گی اور ہر بار جی اٹھے گی۔ یہ مقام ہے غور کرنے کا۔ ہم نے مغربی دنیا میں بچوں کے ایسے جلوس دیکھے ہیں جو نعرے لگا رہے تھے: ہمارا کیا ہو گا۔ ہمارا کیا بنے گا۔
بنگلہ دیش میں سمندر خشکی پر چڑھا آرہا ہے پاکستان میں دریائوں کو پانی دینے والے برفانی گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ مالدیپ کے جزیرے ڈوب رہے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں دنیا کے موسم کے موضوع پر ہونے والی عالمی کانفرنس میں دور دراز جزیروں کے نمائندے آئے تھے۔ انہوں نے ایسی ایسی دل دوز تقریریں کیں کہ سن کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ قطب شمالی اور جنوبی کی تصویریں ہم آئے دن دیکھ رہے ہیں۔ لاکھوں بر س سے جمے ہوئے سمندر اور پہاڑ پگھل رہے ہیں وہ بھی اس طرح کہ دنیا کے سارے سمندروں کی سطح اونچی ہوتی جا رہی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ایک اور طوفان نوح کے آثار ہیں۔ لندن شہر کے بیچوں بیچ دریائے ٹیمز گزرتا ہے۔ اچھے دنوں میں کسی کے ذہن سے یہ خیال گزرا کہ اگر سمندر نے زور مارا اور وہ دریا کے راستے چڑھ کر لندن شہر میں داخل ہو گیا تو کیا ہو گا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب زمین کے گرم ہونے کی بات نہیں چھڑی تھی۔ اس وقت سائنس دانوں نے ایسے آہنی گیٹ بنائے جو اوپر چڑھتے ہوئے پانی کو روک لیں گے۔
ان ہی ماہروں نے بدلتے ہوئے حالات دیکھتے ہوئے اب یہ کہا ہے کہ یہ گیٹ سوکھے تنکے کی طرح بہہ جائیں گے۔ اس سے کئی گنا بڑے گیٹ بنائو ورنہ لندن نہیں بچے گا۔ آنے والے زمانوں کے یہ بھیانک منظر نامے سن کر لندن میں آباد میرے بچے مجھ سے پوچھتے ہیں: ہمارا کیا ہوگا۔ اب کوئی مجھےبتائے میں انہیں کیابتائوں۔