Rauf Hassan 5

عدلیہ، ججز اور عدل

روف حس


فروری ۵۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جن
گ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ کی جانب سے سامنے آنے والا فیصلہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ عدل عدالتی دائرہ اختیار کے زمرے سے نکل چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عدلیہ مقدمات میں قانون کو مساوی لاگو کرنے کی اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہے۔

راقم نے اپنے گزشتہ مضمون میں چند سوالات اٹھائے تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انصاف کی فراہمی کا اختیار رکھنے والا شخص خود احتساب کے دائرہ کار سے بالاتر ہو؟۔ ساتھی جج کا احتساب نہ کرنے پر عدلیہ اپنے وقار کو کیسے برقرار رکھ سکتی ہے؟ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے کچھ مزید سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ملکی قوانین کا اطلاق ججز کے بجائے صرف عام لوگوں پر ہوتا ہے؟ جج صاحبان اپنے ساتھی جج کو فائدہ پہنچانے کیلئے قوانین کی تشریح کس قانون کے تحت کر رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر عام شہری کیلئے الگ اور ججز کیلئے قانون کی تشریح الگ کیوں کی جاتی ہے؟ اسی مقدمے میں سپریم کورٹ اپنی جون 2021ء میں قانون کی تشریح کو جنوری 2022ء میں کیسے تبدیل کر سکتی ہے؟ اس زمرے میں قوانین میں رتی بھر تبدیلی نہیں آئی۔صرف ججوں نے تشریح بدلی جو محض اپنے ساتھی جج کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی۔

یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ سرینا عیسیٰ 3جائیدادوں کی مالک ہیں جن کا ان کے شوہر نے اپنے مالیاتی گوشواروں میں ذکر نہیں کیا۔ یہ معاملہ صریحاً اثاثے چھپانے کے زمرے میں آتا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران سرینا عیسیٰ مذکورہ جائیدادوں کے حصول کیلئے ذرائع آمدن بتانے میں ناکام رہیں۔ اس کے بعد مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ نے ایف بی آر کو سرینا عیسیٰ کی خفیہ جائیدادوں کی چھان بین مکمل کرکے حتمی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اب اسی بینچ نے اپنے پرانے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے ایک نیا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔

اس فیصلے کو الفاظ کا ذخیرہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن یہ انصاف کی روح کے مکمل برعکس ہے۔ فیصلے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ججوں نے بغیرکسی دبائو کے دلیری کے ساتھ عوامی امنگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کی اقدار کی پاسداری کا مکمل خیال رکھا۔ عدلیہ کے ماضی کے فیصلوں کی تاریخ انتہائی تلخ ہے۔ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ میرا مقصد کسی ادارے کا تمسخر اڑانا نہیں بلکہ اس حقیقت کو آشکار کرنا ہے کہ حالیہ عدالتی فیصلے میں سامنے آنے والی غلطیوں کے ذمہ دار منصف ہیں جس سے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچا ہے۔ وہ کیا محرکات تھے جن کے نتیجے میں بنچ نے اپنے ہی تحریر کردہ سابق فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز آج قانونی طورپر درست ہے وہ کل غلط ہو جائے۔ جبکہ قانون بھی وہی ہے اور فیصلہ کرنے والے بھی وہی۔ یہ نظرثانی کی درخواست تھی جس کی سماعت اسی 10 رکنی بینچ نے کی جس نے اس سے قبل اس کی سماعت کی تھی۔

محض چند من پسند افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے قوانین کی غلط تشریح کرنے کی ماضی میں بھی مثالیں موجود ہیں۔ کچھ لوگ عدلیہ کو زیرالتوا مقدمات کے حوالے سے دھمکیاں بھی دے رہے ہیں لیکن نجانے ججز اس پر خاموش کیوں ہیں؟ امیر اور طاقتور طبقہ کیوں آزاد گھوم رہا ہے؟ کوئی غریب اور کمزور شخص ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرے گالیکن اگر کوئی غصے یا مایوسی کی حالت میں عدلیہ پر تنقید کی جسارت کر بیٹھے تو اسے فوراٰ سزا دی جائے گی۔

عدلیہ کی جانب سے ایگزیکٹو کے آئینی دائرہ کار میں غیرضروری مداخلت کا تاثر بھی تیزی کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے جوریاستی معاملات کی انجام دہی پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس غیرضروری اور غیرآئینی مداخلت کو روکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام کے ووٹوں سے وجود میں آنے والی جمہوری حکومت اپنے امور کو موثر انداز میں انجام دے سکے۔ ریاستی امور کی بجاآوری کی راہ میں غیرضروری رکاوٹیں کھڑی کرنا ان ججوں کیلئے لمحہ فکر ہونا چاہئے جو آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ماضی میں اسی طرز کے فیصلوں کے نتیجے میں ریاست کو نہ صرف بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ اس کی عالمی سطح پر بدنامی بھی ہوئی۔

ایک وفاق ہونے کے ناطے تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہنا چاہئے۔ بعض اداروں کی جانب سے آئینی تجاوز پیش کرنے سے نہ صرف غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں بلکہ سنگین مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ طرزعمل نہ صرف ایک ادارے کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے بلکہ اس کے پورے ریاستی نظام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اگر دیگر ریاستی اداروں میں تعینات لوگوں کی قابلیت پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں تو اس کا اطلاق ججوں پر بھی ہونا چاہئے بالخصوص ججز کی تقرری کے وقت ضرور ایسی چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ بلاشبہ ججز کی تقرری عدلیہ عمل میں لاتی ہے جو انتہائی حساس معاملہ ہے تاہم ججوں کی تقرری کے دوران چیک اینڈ بیلنس کا نظام وضع کرنے کیلئے متعلقہ آئینی شقوں میں ترمیم لانے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل میں پارلیمنٹ کے کردار کو مضبوط کیا جائے۔ میرے خیال میں حکومت جہاں دیگر آئینی پیچیدگیوں کو دور کرنا چاہتی ہے وہاں اس حوالے سے بھی چند ترامیم متعارف کرانے کی خواہاں ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی بجائے پارلیمنٹ میں ترامیم کیلئے حکومت سے تعاون کریں کیونکہ یہ معاملہ عوام کیلئے انصاف کو یقینی بنانے کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

عدلیہ کو بطور ادارہ مضبوط بنانا چاہئے۔ عدلیہ کو یکسوئی اور شفاف طریقے سے کام کرکے اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاہئے۔ بالخصوص ایسے وقت میں جب انصاف عدلیہ اور جج صاحبان کے دائرہ کار سے باہر نکلتا دکھائی دے رہا ہو۔ اس کے لیے سب سے زیادہ فکرمند خود عدلیہ کو ہونا چاہئے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.