سیاسی قائدین سے عوامی توقعات
پیر فاروق بہاوالحق شاہ
مارچ ۸۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
جمہوریت اِس وقت دنیا کا سب سے مقبول ترین نظامِ حکومت ہے۔ عوام کی اکثریت اِسی نظام پر اعتماد کرتی ہے۔ اِس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک مخصوص عرصے کے بعد نمائندوں کو عوامی کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، حکمران اپنی ہر پالیسی کے لیے عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں، عوامی اُمنگوں کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینا حکمرانوں کی مجبوری ہوتی ہے، تاہم اگر اِن کتابی باتوں کو ایک طرف رکھ دیا جائے اور پاکستان کے مخصوص حالات کے تناظر میں جمہوریت کے سفر کو بھی دیکھا جائے تو اگرچہ اس کی تاریخ اتنی تاب ناک نہیں کہ جمہوریت کا تسلسل کئی وجوہات کی بِنا پر برقرار نہ رہ سکا، مختلف اسباب کے باعث جمہوری روایات بھی مضبوط نہ ہو پائیں لیکن اس کے باوجود عوام کی اکثریت آج بھی اسی نظام کو پسند کرتی ہے اور اسی نظام کے تحت اپنے نمائندے منتخب کرنا چاہتی ہے۔ طویل تعطل کے بعد جب بھی جمہوریت بحال ہوئی، عوام نے اس پر بے پناہ اعتماد کا اظہار کیا، بعض عوامی نمائندوں کی اہلیت پر سوالات اپنی جگہ، معدودے چند لوگوں پر بدعنوانی کے الزامات بھی بجا، جمہوریت کے درخت پر طاقتوروں کے سائے سے بھی انکار ممکن نہیں، اِن حقائق کے باوجود جمہوریت ہی وہ نظام حکومت ہے جس میں عوامی امنگوں کے مطابق پالیسیاں ترتیب دینے کا اہتمام ممکن ہے۔ 2006پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے ایک اہم سال تھا جب یہاں کے دو بڑے سیاسی رہنماؤں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ طے شدہ اصول و ضوابط کے مطابق چلنے کا عہد کیا۔ میثاقِ جمہوریت دراصل اپنی سابقہ غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے آئندہ غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم تھا۔ رحمٰن ملک مرحوم کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے اِس تاریخی اجلاس کی گونج ایک طویل عرصہ تک پاکستان کی سیاست میں سنائی دیتی رہی۔ محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف دونوں اس دستاویز کو پاکستان میں جمہوریت کی بقا کے لیے ایک اہم ترین قدم خیال کرتے تھے۔ اِس دستاویز میں اِس امر پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ کہ سیاسی طور پر منتخب حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار نہیں کیا جائے گا اور حکومتیں اپنی آئینی مدت مکمل کریں گی۔ دونوں قائدین یہ بھی سمجھتے تھے کہ 90کی دہائی میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کے کھیل کے دوران طاقتوروں نے فائدہ اٹھایا اور دونوں جماعتوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ لہٰذا یہ بھی عہد کیا گیا تھا کہ وہ طاقتوروں کے اشاروں پر کام نہیں کریں گے۔ مشرف کے دورِ اقتدار پر کاری ضرب لگانے میں اس معاہدے نے ایک اہم کردار ادا کیا اور پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر محترمہ بےنظیر بھٹو کا جہاز اُترا تو دوسری طرف علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر میاں محمد نواز شریف نےاپنے ساتھیوں سمیت سر زمین پاک پر قدم رکھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے کچھ ماہ قبل انہیں اترنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور زبردستی واپس بھیجدیا گیا تھا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا دورِ اقتدار مکمل کیا۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے بھی بطور جماعت اپنے اقتدار کا عرصہ مکمل کیا۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے، یہ الگ بات کہ انہیں اپنا دورانیہ مکمل کرنے کا موقع نہ مل سکا اور ان کی باقی ماندہ مدت شاہد خاقان عباسی نے بطور وزیراعظم مکمل کی۔
2018کے انتخابات میں عوام نے پاکستان تحریکِ انصاف کو مینڈیٹ دیا۔ اب سیاسی سوجھ بوجھ کا تقاضا تو یہ ہے کہ عمران خان فطری راستے پر چلتے ہوئے اپنے سیاسی انجام سے دوچار ہوں لیکن اچانک کچھ ایسا ہوا کہ تمام سیاسی قوتیں متحرک ہو گئیں اور عمران خان کے اقتدار پر خدشات کے سائے منڈلانے لگے۔ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو یا نہ ہو، پنجاب کا وزیراعلیٰ تبدیل ہو جائے یا عثمان بزدار ہی برقرار رہیں، چوہدری پرویزالٰہی اسپیکر رہیں یا وزارتِ اعلیٰ کا منصب ایک مرتبہ پھر اُن کا مقدر بن جائے، میاں شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجائیں یا ان کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے، سینیٹ کا چیئرمین تبدیل ہو یا صادق سنجرانی ہی اپنے منصب پر فائز رہیں، بلاول بھٹو کی قیادت میں لانگ مارچ اپنے مقاصد حاصل کر سکے یا نہ کر پائے، تمام سیاسی قائدین سے بطور طالب علم ہماری بھی کچھ گزارشات ہیں۔ پاکستانی قوم اپنے قائدین سے پوچھنے کا حق رکھتی ہے کہ ان کے پاس متبادل پروگرام کیا ہے؟ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم کرکے پی ڈی ایم کے برسراقتدار آنے کے بعد عام آدمی کے حالات میں کس قدر تبدیلی واقع ہو گی؟ جہاں دیدہ اور سرد گرم چشیدہ قائدین سے یہ سوال بھی ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو اس گرداب سے نکالنے کا کیا فارمولہ اپنی بغل میں چھپا کے رکھا ہوا ہے؟ میں نے پہلے بھی اپنے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستانی قوم مزید تجربات کی متحمل نہیںہو سکتی، ملکی حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اُن کو سنبھالنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں، ہمارے علاقائی حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں۔ افغانستان اور روس کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی پالیسیاں از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
ہم کب تک اقتدار کے بےرحم کھیل کا حصہ بنتے رہیں گے، عوام کی کمر پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نے ان کی سانس بند کر دی ہے لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ خدا کے لیے تمام سیاسی جماعتیں اقتدار کے کھیل سے نکلیں اور پاکستان کی سالمیت کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ آصف علی زرداری کی ذہانت، میاں شہباز شریف کی قابلیت، مولانا فضل الرحمٰن کی فہم و فراست، اسفند یار ولی کی قربانیاں، بلوچستان کے سیاست دانوں کی جلا وطنیاں کب پاکستان اور پاکستانی قوم کے کام آئیں گی؟ وطنِ عزیز کو اِس معاشی گرداب سے نکالنے کیلئے ایک نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت ہے جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں۔ تحریک انصاف سمیت کوئی بھی جماعت اِس معاہدے سے باہر نہ ہو۔ جملہ سیاسی قیادت پانی کے بحران پر اکٹھی ہو، تمام قائدین خارجہ پالیسی کی نئی جہت پر اپنا کردار ادا کریں۔ عوام کے حقیقی مسائل پر اکٹھے ہوں گے تو بات بنے گی۔