کوئی اور راستہ نہیں
اوریا جان مقبول
جنوری 3۔۔۔2022
روزنامہ 92نیوز
پاکستان میں ایک بہت ہی مختصر اور محدود طبقہ ایسا ہے جو اس قدر طاقتور ہے کہ وہ گذشتہ ستر سالوں سے پاکستان کا بیرونِ ملک ایک منفی روپ پیش کرنے کی مسلسل کوشش کرتا ہے اور اندرونِ ملک اسے ایک ناکام ریاست، مذہبی شدت پسند قوم اور اقتدار پر غلبے کی خواہش رکھنے والی فوج کے ہاتھوں میں کھیلنے والا ملک بتاتا ہے۔ یہ طبقہ گذشتہ پندرہ سالوں سے میڈیا کی چکا چوند، سوشل میڈیا کے پھیلائو اور ان کے ذریعے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کی وجہ سے خوفناک حد تک طاقتور ہو چکا ہے۔ اس طبقے کی تین اہم علامتیں ہیں (1) یہ پاکستان کی تمام خرابیوں، بُرائیوں اور ناکامیوں کی وجہ جمہوریت کے عدمِ تسلسل کو قرار دیتا ہے (2) یہ جہاں موقع ملے اسلام، مسلمانوں کی آپس کی فرقہ بندی اور اس کی وجہ سے معاشرتی تقسیم کو اجاگر کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے قتل و غارت کے چھوٹے سے واقعے کو بھی برسوں یاد دلاتا رہتا ہے، لیکن قوم پرستی کی وجہ سے اگر کراچی خون میں نہلاتا ہے یا بلوچ، پشتون، سندھی اور پنجابی آپس میں لڑتے ہوئے خون کی ندیاں بھی بہا دیں تو وہ انہیں ’’ناراض‘‘ بھائی کہتا ہے (3) اسے پاکستان کی یکجہتی اور اتحاد اس قدر تکلیف دیتا ہے کہ اسے اس ملک کا واحد ادارہ جہاں داخلے کے بعد ہر کوئی اپنی نسلی شناخت فراموش کر دیتا ہے اور موت کی آغوش میں جانے تک اپنی بنیادی تنظیم (Parent Unit) کے ساتھ محبت برقرار رکھتا ہے، یہ طبقہ اس فوج کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اگر اس کا بس چلے تو یہ گلی گلی اس کے خلاف نفرت کے خاردار پودے لگا دے۔ اس طبقے کے دو بنیادی ہتھیار ہیں جن کی آڑ لے کر اس نے مملکتِ خداداد پاکستان کی ترقی کو تنزلی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ پاکستان کے آئین سے شدید نفرت کرتا ہے، اسے قراردادِ مقاصد بہت چبھتی ہے، اس کی اسلامی دفعات کو یہ پالیسی گائیڈ لائن کہہ کر ردّ کرتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس میں شامل قادیانیوں کو اقلیت قرار دیئے جانے والی شق پھاڑ کر پھینک دے۔ لیکن وہ اس آئین کو پھر بھی قرآنِ پاک سے زیادہ مقدس دستاویز سمجھتا ہے اور لوگوں کو بتاتا پھرتا ہے کہ بس ایک ہی دفعہ سب متحد ہو گئے تھے، اور اب ایسا آئین دوبارہ نہیں لکھا جا سکے گا۔ اس آئین سے محبت کی بنیادی وجہ اس آئین میں حکومتوں اور پارلیمان کی ہیئت ترکیبی ہے۔ یہ اس ہیئت ترکیبی کی آڑ میں کھیلتا ہے اور پاکستان کو نفرتوں کا میدانِ جنگ بنائے رکھتا ہے۔ اس نفرت کی پہلی بنیادی وجہ ملک کی حلقہ بندیاں (Constituencies) ہیں۔ پاکستان میں اس وقت قومی اسمبلی کے 272 حلقے ہیں جہاں سے افراد براہِ راست منتخب ہو کر آتے ہیں۔ یہ ممبران، قانون سازی کی اہم ترین ذمہ داری کیلئے چُنے جاتے ہیں۔ اگر تو انہوں نے پُل بنانے، سڑکیں تعمیر کروانی، سکول یا ہسپتال کھولنے ہوتے تو ان کیلئے اپنے حلقے سے انتخاب ضروری ہوتا۔ اہم بات یہ کہ یہ تمام اراکین زیادہ سے زیادہ پندرہ سے بیس فیصد ووٹروں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ باقی ووٹ تو ان کے مخالفین کو پڑے ہوتے ہیں جن کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں ہوتی۔ دُنیا میں ستانوے (97) جمہوری ممالک ایسے ہیں جہاں ملک بھر میں سیاسی پارٹیوں کو براہِ راست ووٹ ڈالے جاتے ہیں اور انہیں ووٹوں کے حساب سے اسمبلی میں سیٹیں ملتی ہیں۔ اس طرح پورے ملک کا ایک ووٹ بھی ایسا نہیں رہتا جس کی اسمبلی میں نمائندگی نہ ہو۔ ایسے ملکوں میں آسٹریلیا، برازیل، چلی، کولمبیا، ڈنمارک، جرمنی، یونان، انڈونیشیائ، اٹلی، نیوزی لینڈ، ناروے اور سپین جیسے لاتعداد ملک شامل ہیں۔ لیکن پاکستان میں انگریز کے لگائے گئے حلقہ بندیوں کے اس ’’زہر آلود‘‘ پودے کی حمایت کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ یہی تو ایک راستہ ہے، جس کے ذریعے اس ملک کی اسمبلیوں میں جاہل، خاندانوں، برادریوں اور فیملیوں کے ووٹوں والے اور اپنے علاقوں میں دھونس دھاندلی اور بدمعاشی سے جیتنے والوں کیلئے راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔ دُنیا کے اکثر جمہوری ملکوں میں متناسب نمائندگی (Proportional Representation) کا جمہوری نظام رائج ہے۔ اگر پاکستان میں کل پانچ کروڑ ووٹ ڈالے جاتے ہیں تو جس پارٹی کو جتنے بھی ووٹ ملیں گے وہ اسی حساب اپنے اندر سے قابل، قانون سازی کے ماہر اور اہل دماغ اسمبلیوں میں بھیج سکے گی۔ یوں کسی پارٹی کو ملنے والا ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہو گا۔ لیکن میرے ملک کا یہ طبقہ گذشتہ ستر سال سے اسی پارلیمانی حلقہ بندی کی وکالت کرتا ہے کیونکہ اسی کے ذریعے ہی ملک میں نفرت قائم رکھی جا سکتی ہے اور جاہل قیادت کیلئے راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ میرے ملک میں اس فرسودہ اور نفرت انگیز حلقہ بندی نظام کی وکالت میں وہ سب وڈیرے، چودھری، خان اور سردار پیش پیش ہیں جنہیں انگریز عوام پر زمینیں، جائدادیں، سرکاری اعزازات اور نوکریاں دے کر مسلّط کر گیا۔ راستہ صرف یہی ہے کہ معاشرے کو تقسیم کرنے والے اس نظام کو ختم کیا جائے اور متناسب نمائندگی کا نظام اپنایا جائے۔ دوسرا راستہ انگریز کی کھینچی ہوئی صوبائی لکیروں کو ختم کرنا ہے۔ ہمیں اس ملک میں آباد نسلی اکائیوں کو احترام دینا چاہئے اور ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرنا چاہئے، جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے، ’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا اور تم میں کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘ (الحجرات: 13)۔ اس شناخت کو محترم بنانے کیلئے پاکستان میں نسلی اکائیوں کو بلا تعصب ازسرنو ترتیب دینا ہو گا اور انگریز کی بنائی گئی چار صوبوں کی غیر فطری تقسیم کو ختم کر کے پاکستان کے آئین میں نئی اکائیوں کو مرتب کرنا ہو گا۔ بلوچستان میں پشتون، بروہی، مکران کے بلوچ اور بولان سے نیچے سبی، ڈیرہ بگٹی اور نصیر آباد ڈویژن کے بلوچ علیحدہ اکائیاں ہیں، اسی طرح پنجاب میں سرائیکی، بہاولپور کے ریاستی، وسطی پنجاب کے پنجابی، پوٹھوہار کے پوٹھوہاری اور جھنگ اور ملحقہ علاقوں کے جانگلی الگ الگ اکائیاں ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں ہزارہ کے علاقے کے ہندکو بولنے والے، مردان، چارسدہ اور پشاور کے خالص پشتو بولنے والے، ریاست سوات والے اور اسی طرح قبائلی علاقہ جات کے لوگ جن کی پشتو ان خالص پشتو بولنے والوں کے سروں سے گزر جاتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں ستر سال سے آباد اُردو بولنے والوں کو اب نہ کوئی نکال کر بحیرۂ عرب میں پھینک سکتا ہے اور نہ ہی انہیں کسی دوسرے کی تہذیب اوڑھنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ دُنیا بھر میں ایسے بے شمار ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ دارالحکومت اور وفاقی علاقے (Territories) ہیں جن میں جنوبی افریقہ، ملائیشیائ، نیدر لینڈ اور سری لنکا شامل ہیں۔ پاکستان کے جن شہروں میں ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے یا مختلف نسلوں اور قوموں کے لوگ آباد ہیں انہیں وفاقی علاقے یا دارالحکومت قرار دے کر وہاں مرکزی حکومت قائم کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں اگر اسلام آباد کی قربانی دے کر اسے پوٹھوہار کا صوبائی ہیڈ کوارٹر بنا کر کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کو چار وفاقی علاقے یا دارالحکومت بنا دیا جائے تو معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی، معاشی اور معاشرتی انارکی کا اس کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ طبقات جو اس ملک کا روشن مستقبل نہیں چاہتے اور جو روز یہ خواب دیکھتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک ایک دن چار حصوں میں تقسیم ہو جائے، وہ اپنے پروپیگنڈے کے زور پر ایسا نہیں ہونے دینگے۔ لیکن تجربہ یہ کہتا ہے کہ جب بھی ایک دفعہ ایک ضلع سے کوئی علاقہ علیحدہ کر کے دوسرا ضلع بنا دیا گیا تو پھر لوگوں نے خود اس نئے بننے والے ضلع کی حفاظت کی۔ پاکستان میں بھی اگر ان اکائیوں کی بنیاد پر نئے صوبے بنا دیئے گئے، نئے وزرائے اعلیٰ اور گورنر وہاں بیٹھ گئے تو عوام خود ان کی حفاظت کرینگے۔ کوئی انہیں پرانی حالت میں واپس نہیں جانے دے گا۔