اب جو ہو گا… لمبے عرصے کے لئے ہو گا
اولیا جان مقبول
جنوری ۳۰۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
کیسے ممکن تھا کہ وہ قومی اسمبلی اور سینٹ جس میں اسّی فیصد سے زیادہ ایسے ارکان ہوں جنہوں نے خود یا ان کے آبائواجداد نے اس ملک کو قرض کی دلدل اور سود کی لعنت میں گرفتار کیا تھا، وہ اپنے حقیقی آقائوں کے عالمی مالیاتی نظام کے مطالبے کے برعکس سٹیٹ بنک کی خودمختاری کا بل مسترد کر دیتے۔ پاکستان کی سیاسی قیادت سے جو یہ توقع رکھتا ہے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ دُنیا بھر کیلئے یہ باعثِ حیرت نہیں، مضحکہ خیز بات ہے کہ وہ قانون جس کے بارے میں وہ تمام اپوزیشن سیاسی پارٹیاں جن کی سینٹ میں اکثریت ہے، گذشتہ ایک ماہ سے لوگوں کو یہ بتانے میں مصروف رہی ہوں کہ اس کے ذریعے پاکستان کی خودمختاری، غیرت اور عزت آئی ایم ایف کے ہاتھوں بیچ دی گئی ہے، مگر اُسے مسترد کرنے کا وقت آئے تو یہ اکثریت ایک دَم اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔ اس سے زیادہ عبرت کا مقام یہ ہے کہ ایک دن پہلے نعیم اشرف بٹ ایک ٹیلی ویژن پر یہ خبر دے کہ بل پاس ہو گا، اور جمعہ والے دن ہو گا اور اپوزیشن کے ارکان غیر حاضر بھی ہوں گے اور اس پیشگوئی کو سچ ثابت کرتے ہوئے کوئی بیمار ہو جائے تو کسی کو فاتحہ خوانی یاد آ جائے، کوئی ملک سے باہر ہو اور واپسی کا ٹکٹ خریدنے کی ’استطاعت‘‘ نہ رکھتا ہو اور کوئی ایوان میں آئے، بل پیش کرنے سے پہلے والی رائے شماری میں شریک ہو اور جب بل کو مسترد کرنے کا وقت آئے تو آرام سے ’’کھسک‘‘ جائے۔ یہ منظر نامہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کے بڑے المیوں میں لکھا جائے گا۔ پاکستانی پارلیمنٹ وہ سیاسی بازار ہے جس کی گرمی اور چکا چوند کسی ’’خریدار‘‘ اور ’’صاحبِ طاقت‘‘ کے اشارے پر زندہ ہوتی ہے۔ یہ کسی نظام، آئین اور قانون کی محتاج نہیں ہے۔ جس صدارتی نظام کے خلاف آج پوری اپوزیشن خم ٹھونکے میدان میں کھڑی ہے اور کہتی ہے کہ اگر یہ نافذ ہو گیا تو ملک کی سا لمیت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اسی صدارتی نظام کے نفاذ کا عالم یہ ہے کہ اگر پارٹی کا سربراہ آصف زرداری، پارلیمانی نظام کا بے بس صدر ہی کیوں نہ ہو، وہ منتخب وزیر اعظم کی حیثیت دروازے کے دربان کے برابر کر دیتا ہے۔ اس کے دَور میں فائلیں ایوانِ صدر جاتی تھیں، ان پر کچی پنسل سے احکامات درج ہوتے تھے اور وزیراعظم پرائمری کے کسی طالب علم کی طرح، انہیں ربڑ سے مٹا کر قلم سے وہی عبارت دوبارہ تحریر کرتا تھا۔ اس ’’عظیم‘‘ اور ’’سپریم‘‘ پارلیمنٹ کے اراکین جن کی زبانیں اداروں کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے تھکتی نہیں، جو روز اس ملک کے ’’سادہ لوح‘‘ عوام کو جمہوریت کے خواب دکھاتے ہیں، وہ اس وقت ایوان میں اپنے تمام تر مفادات، رنجشوں اور نفرتوں کو ایک لمحے میں اچانک بھلا دیتے ہیں جب ایک حیرت زدہ لمحہ آتا ہے ایسا لمحہ کہ جس ایوان سے وزیر اعظم کے انتخاب میں عمران خان کو اکاون فیصد ووٹ پڑیں اسی ایوان میں ’’قومی مفاد‘‘ کے عظیم تقاضوں کی پاسداری کے تحت آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کی توسیع کیلئے سو فیصد ووٹ پڑیں: بندۂ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ایسے ایوان کے ممبران کو یہ شکایت زیبا ہی نہیں دیتی کہ ہمیں بہلانے پھسلانے کیلئے ٹیلیفون کالز آتی ہیں۔ اس ملک کی گذشتہ ساٹھ سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ان سب کی حالت ہمیشہ فراق ؔکے اس مصرعے جیسی رہی ہے ’’ہم اہلِ انتظار کے، آہٹ پہ کان ہیں‘‘۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہرچند سال بعد سوئمبر کی رسم سجتی ہے، ’’شہزادہ‘‘ جس کے گلے میں پھولوں کی مالا پہنا دے وہی سہاگن اور باقیوں کیلئے اگلے چند سال ناکامیوں کا ماتم اور اگلے سوئمبر کیلئے اُمیدیں، دُعائیں، منّتیں، چڑھاوے اور فون کالز پر دیئے گئے احکامات کی بروچشم تعمیل۔ یہ ہے اس ملک کے جمہوری نظام کی تاریخ۔ ایوب خان مارشل لاء لگا کر سیاسی پارٹی بنائے تو قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو اس کنونشن مسلم لیگ کا سیکرٹری جنرل، یحییٰ خان مشرقی پاکستان کے الیکشن کالعدم قرار دے کر جیتی ہوئی عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے کر نام نہاد ضمنی الیکشن کرے تو وہی عظیم جمہوری قائد ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کا نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ۔ ضیاء الحق مارشل لاء لگائے تو خان عبدالولی خان سے لے کر نواز شریف تک سب اسی دروازے کے دربان۔ پرویز مشرف کا آمرانہ دَور آئے تو نہ صرف یہ کہ چوہدری پرویز الٰہی اسے دس دفعہ وردی میں منتخب کرنے کا اعلان کرے، بلکہ پیپلز پارٹی اس کے وزیر اعظم کیلئے اپنے درجن بھر جیالے پیٹراٹ بنا کر اس کے حوالے کر دے۔ اور وردی میں اسے صدر منتخب کرنے کیلئے مولانا فضل الرحمن صوبہ سرحد کی اسمبلی نہ توڑیں۔ غضب کا عالم یہ ہے کہ آج کی منتخب اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اراکین کی کثیر تعداد پرویز مشرف کے ہم رکاب ہی نہیں بلکہ ہم نوالہ اور ہم پیالہ بھی تھی۔ یہ ہے پاکستان کی حلقہ بندیوں والی اسمبلیوں کی جمہوری تاریخ اور ان سب کی جمہوری استعداد۔ ہماری جمہوری تاریخ کا لبادہ ایسا تار تار ہے کہ اس نے پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کا چہرہ بھی بے نقاب کیا ہے اور اسی کی ’’خواہشِ تسلیم و رضا‘‘ اور ’’حکم کی تعمیل‘‘ کی بے چینی کو بھی نمایاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے میں اگر موجودہ بدلتے ہوئے حالات اور مالی صورتِ حال کی وجہ سے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 232 کے تحت صدرِ پاکستان کسی بھی قسم کی ایمرجنسی نافذ کرتا ہے اور جسے تیس دن کے اندر دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور سینٹ میں اس کی منظوری لینا ضروری ہو گی، تو کیا پاکستان کی موجودہ اسمبلی اور سینٹ اسے منظور نہیں کرے گی۔ جس پارلیمنٹ کے اجلاس میں چند گھنٹوں کے اندر تیس سے زائد بل پاس ہو جائیں، ایسے شور شرابے اور مچھلی بازار میں کیا ایمرجنسی کی منظوری لینا مشکل ہو گا۔ گذشتہ تین سالوں میں چھ دفعہ ایسے مواقع آئے کہ جب ’’اربابِ اختیار‘‘ نے یہ ثابت کیا کہ جمہوری اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ شورش کاشمیری مرحوم اپنی تقریروں میں ایک شعر بڑے طمطراق سے پڑھا کرتے تھے: جانے تعداد کی کثرت کو تو کیا سمجھا ہے شیر جنگل میں اکیلا ہی بہت ہوتا ہے متوقع ایمرجنسی کی آمد سے قبل پاکستان نے اپنی تاریخ کی پہلی نیشنل سیکورٹی پالیسی مرتب کی ہے، جس کے تحت اس ملک کے دفاع کو براہِ راست معاشی صورتحال سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ یعنی ہماری آزادی، خودمختاری اور دفاع اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ہم معاشی قیود سے آزاد نہیں ہو پاتے۔ اب ایک لمحے کیلئے پاکستان کی معاشی صورتحال کی ابتری پر غور کریں۔ اس ملک پر بیرونی قرضہ تقریباً 121 ارب ڈالر اور اندرونی قرضہ 204 ارب ڈالر ہے۔ یہ تمام قرضہ ہماری سالانہ جی ڈی پی کا 88 فیصد ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر کسی ملک کا قرضہ اس کی جی ڈی پی سے 50 فیصد سے زیادہ ہو جائے تو وہ ملک معاشی ایمرجنسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اس زوال کو نہ روکا جائے تو وہ ایسے گڑھے میں جا گرتا ہے جہاں قرض خواہ گدھیں اس کا گوشت نوچنے کو تیار بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہ صورتحال اس ملک کی ہے، جس کی سرحدیں پر امن ہوں، لیکن پاکستان جیسا ملک جو صرف سیاہ چین پر سالانہ 2190 کروڑ روپے خرچ کرتا ہو اور قرض کی قسط کی ادائیگی کے بعد اس کے پاس صرف 754 ارب بچیں، اور ان رپوئوں سے بائیس کروڑ عوام کا یہ ملک چلانا پڑے، وہاں ایمرجنسی ایک ضرورت بن کر اُبھر چکی ہے۔ لیکن کب اور کس وقت اس کا فیصلہ ہو گا۔ اس سے پہلے ایک بہت بڑے فیصلے کے اعلان کا انتظار ہے کہ ہم اپنی معاشی مجبوریوں کا حل اسی طرح امریکہ کی چوکھٹ سے وابستہ رہ کر کریں گے یا چین کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ فروری کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم کا دورۂ چین بہت اہم ہے۔ اب جو بھی فیصلہ ہو گا مستقل ہو گا۔ اور لمبے عرصے کیلئے ہو گا۔ خوشحالی لوٹ آئی تو پھر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے۔