Olia Jan 10

میسور کی بیٹی: حجاب کی محافظ

ایک جانب ڈیڑھ ارب بے حس مسلمان اور دوسری جانب اللہ کی بڑائی کا اعلان کرتے ہوئے نعرۂ تکبیر بلند کرتی ہوئی ایک باپردہ مسلمان لڑکی… یہ ہے اس اُمت مرحومہ کی تصویر… یہ اُمت اسی دن ختم ہو گئی تھی جب اسے قومی ریاستوں کی قبروں میں دفن کر کے ان پر نسل، رنگ، زبان اور علاقوں کے رنگ برنگے پرچم لہرا دیئے گئے تھے۔جس ہندوستان کی سرزمین پر اس نہتی لڑکی نے اللہ اکبر کی صدا بلند کی ہے، وہاں آج سے ایک صدی قبل،برطانوی تسلط میں غلام مسلمانوں نے بھی مسلم اُمّہ کی اجتماعی علامت اور آخری ڈھال ’’خلافت‘‘ کی مرکزیت کے تحفظ کیلئے آواز اُٹھائی تھی۔ پوری اُمتِ مسلمہ میں یہ واحد آواز تھی جو غلام ہندوستان کے غلام مسلمانوں کے اس گروہِ عظیم نے بلند کی تھی جس کی قیادت مولانا محمد علی جوہرؒ اور مولانا شوکت علیؒ کر رہے تھے۔ پورا عالمِ اسلام اس وقت رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ غدّار ملتِ اسلامیہ شریفِ مکہ اپنی ہاشمی عصبیت کا پرچم اُٹھائے، ملت کے شیرازے کو تار تار کرنے کیلئے اپنے گھر کی کھڑکی سے فائر کر کے عالمِ کفر کی اتحادی افواج کا ساتھ دیتے ہوئے خلافتِ عثمانیہ کے خلاف جنگ کا آغاز کر چکا تھا۔ لیکن اس عالمِ جبر میں بھی برصغیر کے مسلمان ہی تھے جو اسلامی مرکزیت کی بربادی کا نوحہ بن چکے تھے۔ جس حجاز کی سمت مسلمان رُخ کر کے نماز ادا کرتے تھے وہیں سے اس اُمت کی تفریق کا بیج بویا گیا تھا۔ اسی المیے پر اقبالؒ نے کہا تھا۔ بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰؐ خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش اسلام کی مرکزیت، یعنی خلافت کی اجتماعیت کو ختم کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اگر بھارت کے مسلمانوں پر کچھ بھی بیتے تو مراکش سے لے کر برونائی تک پوری اُمت ِ مسلمہ کے کسی مسلمان کی آنکھ نم نہ ہو، افغانستان اور عراق میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہو، پوری دُنیا اِن پر چڑھ دوڑے، لیکن قومی ریاستوں کے چڑیا گھر میں قید مسلمان اپنے ملکوں کے پنجروں میں دبکے بیٹھے رہیں۔ مسلمان اُمت کو صرف قومی ریاستوں میں تقسیم ہی نہیں کیا گیا بلکہ پوری کوشش کی گئی کہ یہ معمولی سطح پر بھی ایک وحدت میں اس طرح اکٹھی نہ ہو سکیں جس طرح یورپی یونین ایک جھنڈے، ایک آئین اور ایک کرنسی کے تحت آج ایسے اکٹھی ہوئی ہے کہ ان کی آپس کی سرحدیں اس طرح ہیں جیسے موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے شہر آتے ہیں۔ کرناٹک کے شہر اودوپی میں جس لڑکی نے چاروں جانب بپھرے ہوئے ہجوم کے درمیان ’’جے شری رام‘‘ کے مقابل ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا بلند کی ہے، اس نے میدانِ احد میں اس لمحے کی یاد تازہ کر دی ہے جب مسلمان کچھ دیر کے لئے مغلوب ہوئے تھے تو کفار نے عزیٰ اور حبل کی بڑائی کا نعرہ بلند کیا ۔ صحابہؓ نے جواباً سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ’’اللہ اعلیٰ واجل‘‘ اللہ ہی اعلیٰ ہے اور جلالت والا ہے، کا فلک شگاف نعرہ بلند کیا تھا۔ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے اور ماتم کرنے کا مقام ہے وہ صدائے اللہ اکبر جو چودہ سو سال سے مسلمان ایسے مرد دُنیا بھر میں بلند کرتے تھے کہ بقول اقبالؒ دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں میں آج اس میدانِ کارزار میں اللہ کی بڑائی اور بزرگی کا اعلان ایک حجاب والی مسلمان لڑکی نے کیا ہے۔ مسلمانوں پر یہ اُفتاد کبھی نہ ٹوٹتی، اگر مسلمان ایک مرکزیت پر جمع ہوتے۔ انگریز وائسرائے نے کالا پانی میں مولانا محمود الحسن سے کہا تھا کہ ہم نے کمزور ترین خلافتِ عثمانیہ کو بھی اس لئے ختم کیا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اس کی ایک پکار پر مسلمانوں پر لبیک کہتے جہاد کیلئے نکلنا فرض ہو جاتا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ’’بے شک مسلمانوں کا خلیفہ ایک ڈھال کی مانند ہے، جس کے پیچھے رہ کر اُمت لڑتی ہے اور تحفظ حاصل کرتی ہے‘‘ (سنن نسائی)۔بھارت کے مسلمان دُشمن معاشرے میں ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا کہ غیرت و حمیت کی جنگ کا پرچم مسلمان عورتوں نے تھاما ہو۔ آج سے دو سال قبل 16 دسمبر 2019ء کو جب جامعہ ملیہ اسلامیہ دِلّی کی بچیاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عبداللہ گرلز ہاسٹل پر پولیس کے دھاوے کے بعد دِلّی کے شاہین باغ کے پسماندہ اور غریب علاقے میں دھرنے پر بیٹھ گئیںتو پہلی رات یہ صرف دس خواتین تھیں اور پھر وہاں مسلم خواتین کا ایک ہجوم بنتا چلا گیا۔ مسلمان خواتین نے ایسا اجتماعی احتجاج پہلی دفعہ 2002ء کے احمد آباد فسادات اور مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد شروع کیا تھا۔ ان فسادات میں سچ کی آواز کو بلند کرتا ہوا جو چہرہ سامنے آیا،وہ رعنا ایوب کا تھا جس کی کتاب ’’گجرات فائلز‘‘(Gujrat Files) نے ان تمام مظالم کو طشت اَز بام کیا تھا۔شبنم ہاشمی نے انہی فسادات کے بعد اپنی مشہور تنظیم’’انحاد‘‘(Anhad) بنائی۔ اس جیسی ایک انتہائی ماڈرن خاتون نے بھی گجرات فسادات سے لے کر موجودہ ہندو توا تعصب اور مسلمانوں کے خلاف یلغار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت کی مسلمان عورتیں اب برقعہ اور حجاب میں اپنی شناخت کو نئی شکل دے رہی ہیں، اب انہیں مسلمان کہلانے میں نہ تو ڈر لگتا ہے اور نہ ہی شرم آتی ہے‘‘۔ جس وقت مسلمانوں کے خلاف شہریت کا متنازع قانون پاس ہوا، اس قانون کے حق میں 22 دسمبر کو نریندر مودی نے دِلّی کی سڑکوں میں ایک ریلی نکالی، مگر اس کی ریلی میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں، جبکہ اس کی مخالفت میں مسلمان خواتین کی بہت بڑی تعداد سڑکوں پر احتجاج کر رہی تھی۔ بھارت کی مسلمان عورتوں میں حجاب ایک علامت بن کر اُبھرا ہے۔ اپنی شناخت کی علامت، احتجاج کی علامت، ظالم سے بغاوت کی علامت۔ مسلمان عورتوں سے ان کی اس شناخت کو چھیننے کی پہلی منظم کوشش 2016ء میں ریاست کیرالہ کے سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن نے کی، جس نے کالجوں میں داخلے کیلئے پری میڈیکل داخلہ ٹیسٹ میں مسلمان عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگائی۔ پابندی کا بہانہ یہ بنایا گیا کہ، اس طرح لڑکیاں برقعے میں موبائل یا ٹیبلٹ وغیرہ چھپا کر لاتی ہیں تاکہ نقل کر سکیں۔ ایک خاتون آمنہ بنت بشیر اور اس کے والد نے کیرالہ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔ عدالت نے 26 اپریل 2016ء کو مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت دیتے ہوئے سیکنڈری بورڈ کا حکم نامہ معطل کر دیا۔ مگر دوسری جانب 2008ء میں بھارتی ایئر فورس کے ایک مسلمان آفیسر آفتاب احمد انصاری نے عدالت میں یہ درخواست دی کہ اس نے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے داڑھی بڑھائی تو اس کے کمانڈنگ آفیسر نے اسے فوج سے برخواست کروا دیا۔ آٹھ سال بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والے بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ کوئی مسلمان فوج میں داڑھی نہیں رکھ سکتا۔ یہ وہی بھارتی فوج ہے جس کے قانون کے مطابق سکھ تو داڑھی بھی رکھ سکتا ہے اور فوجی ٹوپی کی بجائے پگڑی بھی پہن سکتا ہے لیکن مسلمان اپنی شناخت کے مطابق داڑھی نہیں رکھ سکتا۔ اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے اور حجاب کو مسلمان غیرت و حمیت کی علامت بنانے والی بچی مسکان کا شہر اودو پی ہے جو کبھی ٹیپو سلطان کی ریاست میسور کا حصہ تھا اور اس کا ساحلی شہر بھی۔ اس ریاست کرناٹک میں 78 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے 1799ء میں ٹیپو سلطان اور اس کا میسور انگریز کے خلاف جہاد کی ایک ایسی علامت بن کر اُبھرا تھا کہ ایڈنبرا کے قلعے میں آج بھی ٹیپو کی تلوار کے ساتھ یہ فقرہ درج ہے کہ ’’ٹیپو کی موت برطانوی حکومت کیلئے اس قدر خوشی کی بات تھی کہ اس دن پورے برطانیہ میں عام چھٹی کی گئی تھی‘‘۔ اسی ٹیپو سلطان کی میراث کا پرچم آج ایک خاتون مسکان نے اُٹھا لیا ہے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.