تحریکِ عدم اعتماد یا لانگ مارچ؟
نفیس صدیقی
فروری 14۔۔۔2022
بشکریہ روزنامہ جنگ
وزیراعظم عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کے اپوزیشن کے منصوبے کی کامیابی کے امکانات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حالات کبھی بھی کروٹ بدل سکتے ہیں لیکن اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپنے علیحدہ علیحدہ لانگ مارچ کے پروگرام پر فوکس کرے کیونکہ پاکستان کی سیاست اس وقت کیفیتی سیاسی تبدیلی کی متقاضی ہے ۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے کار پردازانِ اقتدار یعنی اسٹیبلشمنٹ نے غیر جانبداری والا رویہ اختیا رکر لیا ہے ۔ اس نے نہ صرف تحریکِ انصاف کی حکومت کی سرپرستی ختم کردی ہے بلکہ اپوزیشن کو بھی کوئی پروگرام یا اسکرپٹ نہیں دیا ۔ اس تاثر کے درست ہونے کیلئے مختلف دلائل دیئے جارہے ہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات غیرمعمولی سیاسی واقعہ ہے ۔ اسی طرح آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی مسلم لیگ (ن) کے قائدین میاں شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقاتیں بھی ایک سیاسی بریک تھرو ہیں ۔ اس کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کے رہنماوں کی میاں شہباز شریف سے ملاقات بھی کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہے ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور عدلیہ کے بعض حالیہ فیصلوں کو بھی اسٹیبلشمنٹ کی غیرجانبداری سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر مسئلہ کیا ہے ؟
اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عوام میں جس طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں، ان سے بھی پاکستان کے مقتدر حلقے واقف ہیں۔ ماضی میں کسی بھی حکومت کے خلاف اس سے بھی کم جذبات ہوتے تھے تو مقتدر حلقے ’’ عوام کے ساتھ ‘‘ ہو جاتے تھے۔ اس وقت تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (فنکشنل)، بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ ) اور دیگر اگرچہ اپوزیشن کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن وہ اپنے آزادانہ فیصلے نہیں کر ر ہیں ۔
مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر کامل آغا نے تو ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ واضح کر دیا ہے، جو ریاست فیصلہ کرے گی، ان کی جماعت کا فیصلہ وہی ہو گا اور ریاست ریاست ہوتی ہے۔ دیگر اتحادی بھی بین السطور یہی کہہ رہے ہیں ۔ اس وقت تحریکِ انصاف کے وہ تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اسے چھوڑنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں ، جنہیں 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف میں شامل کیا گیا تھا۔ جہانگیر ترین کا جہاز تو پرواز کیلئے تیار ہے لیکن پھر بھی سب ’’ غیر جانبدار ‘‘ اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ ان سب کو چھوڑیں، خود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) بھی آئندہ سیٹ اَپ کیلئے غیر جانبدار لوگوں سے معاملات طے کرنے کی سیاست کر رہی ہیں۔ وہ بھی ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتیں، جو مستقبل کی حکومت میں انکی مشکلات کا سبب بن جائے۔
بہتر یہی ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں اسکی اتحادی جماعتیں اپنے اپنے لانگ مارچ پر توجہ دیں ۔ تحریک انصاف میں شامل ارکانِ پارلیمنٹ اور تحریک انصاف کی حمایت میں اتحادی جماعتیں اس وقت تک آگے نہیں بڑھیں گی ، جب تک وہ غیر جانبدار لوگوں کی طرف دیکھتی رہیں گی ۔ وہ اس وقت جو کچھ کر رہی ہیں ، آئندہ سیٹ اپ میں بارگیننگ کیلئے کر رہی ہیں ۔ جہانگیر ترین بھی کواگرئی فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت کچھ سمجھا جا سکتا ہے ۔
جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کیفیتی سیاسی تبدیلی کا متقاضی ہے ۔ سیاست بہت مجبوریوں اور جکڑ بندیوں کا شکار ہو گئی ہے ۔ یہ پاکستان کی سیاست کا انتہائی افسوس ناک پہلو ہے ۔ آزارانہ سیاسی عمل کے لئے حقیقی ایشوز پر عوامی سیاست کرنا ضروری ہے ۔ موجودہ حالات اس کے لئے بہترین موقع فراہم کر رہے ہیں ۔ لانگ مارچ اس عوامی سیاست کا راستہ کھول دیں گے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حالات لانگ مارچ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے کنٹرول میں بھی نہ رہیں لیکن پاکستانی سیاست کو واپس عوام کے ہاتھ میں دینے کےلئے غیر معمولی سیاسی سرگرمی لازمی ہو گئی ہے ۔
تحریکِ انصاف نے بھی اقتدار میں آنے سے پہلے بہت زیادہ سیاسی سرگرمی کی لیکن اس میں مڈل کلاس کا کردار غالب تھا۔ اسلئے اس کا رُخ دوسرا تھا ۔ بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تحریک کی طرح تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں نے بھی پاکستانی عوامی سیاست کو بہت نقصان پہنچایا ،ان لانگ مارچز کا رُخ دوسرا ہو گا لیکن اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے غیر جانبدار لوگوں کی طرف دیکھے بغیر اور نتائج کی پروا کئے بغیر لانگ مارچ کئے تو پھر پاکستان میں آزادانہ سیاسی عمل کو دوبارہ کسی حد تک بحال کیا جا سکتا ہے ۔خدشہ یہ ہے کہ اس سے پہلے حالات اچانک کروٹ لے سکتے ہیں کیونکہ پہلے بھی لانگ مارچ کے ایشو پر پی ڈی ایم ٹوٹ گئی تھی ۔ پاکستان میں کیفیتی سیاسی تبدیلی کا یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا ہوا تو تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی ناکامی بھی سیاست کو مزید جکڑ بندیوں کا شکار بنا دے گی ۔