کالا باغ ڈیم ناگزیر، مونس الٰہی کا کلمہ حق
ڈاکڑ مجاہد منصوری
فروری ۱۹،،،۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جن
آج پاکستان بھاری بھرکم قرضوں کے جس بوجھ سے اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے۔ وائے بدنصیبی اس کی بڑی وجہ ہماری تیزی سے کرپٹ ہوتی گئی حکومتوں کی سرکاری خزانے میں کھلی اور ممکنہ حد تک گنجائش پیدا کرنا بنی۔ اس ’’ممکنہ حد‘‘ میں بھی اضافہ تیز تر ہوا۔ کرپٹ حکومتوں نے بالائی سطح کے الیکٹ ایبلز اور بااختیار امراءکو امیر ترین اور عوام الناس کو غربت میں دھکیلنے کیلئے انتہائی مکاری سے دانستہ توانائی کی قلت پیدا کرکے، درآمدی انحصار بڑھانے کی مجرمانہ ذہنیت سے بذریعہ آئی پی پیز بجلی کی ملک گیر سپلائی کا نظام تشکیل دیا۔ آج یہ پرائیویٹ انرجی پروڈیوسرز ایک نہیں کتنے ہی سفید ہاتھیوں کے طور پر ہم پر مسلط ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ آئی پی پیز کا دھندہ کوٹ ادو پاور پروجیکٹ کی غیر ملکی سرمایہ کاری سے شروع ہو کر رُکا ہی نہیں، رُکا تو کالا باغ ڈیم جیسا سستا ترین، شفاف اور عوام دوست توانائی اور وسیع تر آبپاشی کا مکمل تیار پلان (منصوبہ بندی کی حد تک) جسے جامد کردیاگیا۔ رکاوٹیں تو اس میں پہلے سے ہی پڑ رہی تھیں۔ اب اس کی شدت سے مطلوب تعمیر کی اتنی اور ایسے سیاسی مخالفت و مزاحمت کا سلسلہ شروع ہوا کہ اس کا نام لینا بھی ممنوع، انتہائی غیر سیاسی اور حساس ہوگیا۔ اب جاری اقتصادی بحران میں یہ پھر بہت وسیع مکالمے کے لیے شدت سے مطلوب موضوع ہے۔ خصوصاً اب جبکہ موجودہ حکومت نے اپنی سوال بنی گورننس کے کتنے ہی گرے ایریاز کے ساتھ یہ کمال تو کردیا کہ اے پی پیز کے ساتھ مکمل مشکو ک اور عوام مخالف معاہدوں کو ممکن حد تک ملکی مفاد میں نئی شرائط سے طے کرا کر، عشروں کے بعد پھر ملک کو انرجی میں زیادہ سے زیادہ خود کفیل بنانے کی عملاً ہمت کردی۔ پن بجلی (ہائیڈل پاور) کے بڑے، چھوٹے اور درمیانے دس ڈیمز کی منصوبہ بندی کو عمل میں ڈھال دیا اور ان سب پر کام جاری ہے۔
اس پس منظر میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل مونس الٰہی نے پاکستان کی آبی ترقی پر اسلام آباد میں گزشتہ روز منعقدہ بین الاقوامی سمپوزیم میں کالا باغ ڈیم کو پاکستان کی جملہ اقتصادی و عوامی ضروریات کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ واٹر ریسورسز کے وفاقی وزیر نے اس حوالے سے ایک بہت توجہ طلب فنی نوعیت کی اطلاع یہ دی کہ زیر تعمیر ڈیم جب تک تیار ہوں گے اس وقت تک سلٹنگ کےباعث پاکستان کا واٹر اسٹوریج لیول بڑھنے کی بجائے اتنا ہی ہوگا جتنا آج ہے۔ اس صورت میں پانی کی کمی سے جو ضرورت ہوگی اسے کالا باغ ڈیم ہی پورا کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں انہوں نے اعلان کیا کہ وہ سب کو ساتھ لے کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی تجویز جلد ہی کابینہ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کریںگے۔ واضح رہے کہ کسی کرپٹ سے کرپٹ اور بدتر گورننس کے حامل ترقی پذیر ملک میں بھی ایسے کسی بیش بہا قدرتی وسیلے کو سیاسی مزاحمت و مخالفت سے جامد کرکے ایسا کفرانِ نعمت نہیں ہوا، جو ہماری محدود پارلیمانی جسامت کی حامل قوتوں نے کیا۔ پاکستان میں اسٹیٹس کو کی عوامی اور ملکی مفاد کی مسلسل بیخ کنی کی یہ کہانی بہت اذیت ناک اور ہر صوبے کی آنے والی نسل پر ظلمِ مسلسل کے مترادف ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی ماحول میں اس کی گنجائش نہیںکہ اس کا تلخ تجزیہ کیا جائے۔تاہم اب جبکہ دو منتخب حکومتیں اقتدار کی مدت پوری ہونے کے بعد اب تیسری حکومت یعنی ساڑھے تین سال مکمل کر چکی ہے، اس سےبڑی بری طرح بگڑا ہمارا جمہوری سیاسی عمل پہلی مرتبہ سنبھل کر کچھ SUSTAINABLE ہوا ہے،سو کالا باغ ڈیم کی درد ناک کہانی کو دہرایا تو نہیں جا سکتا، بہتر ہے اس پر کوئی نئی کج بحثی شروع نہ کی جائے۔لیکن یہ تلخ حقیقت اب بالکل عیاں ہے کہ ’’واٹر سینچری‘‘ کا تیسرا عشرہ شروع ہونے پر بھی ہم دریائے سندھ کا 80 فیصد پانی سالانہ بنیاد پر بغیر استعمال کیے سمندر میں بہا رہے ہیں۔ جبکہ کالا باغ ڈیم پر جوا سٹڈیز ہو چکی ہیں، اس میں یہ یقینی ہے کہ اس کی تعمیر کے نتیجے میں پاکستان اپنی موجود محدود پن بجلی بنانے کی صلاحیت میں یکدم 3600 میگاواٹ بجلی اور 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ حاصل کرسکتا ہے، جس سے سستی بجلی کے علاوہ صوبہ سندھ کو موجودہ پانی کی فراہمی کے مقابلے میں 40 لاکھ ایکڑ فٹ، پنجاب کو 22، خیبرپختونخوا کو 20اور بلوچستان کو 15 لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی ملنا یقینی ہے جس سے چاروں صوبوں کے وسیع خطوں میں گرین ایولیشن برپا ہوگا جو خوشحالی اور شدت سے مطلوب قدرتی سرسبز ماحول کیلئے رحمت کا سبب بنے گا۔ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی کی اطلاع کے لیے گزارش ہے کہ حکمت کا تقاضا ہے کہ جامد منصوبےکی بحالی کے لیے کوئی روایتی بڑی ابلاغی مہم چلانے کی بجائے کمیونیکیشن سائنس کے سکہ بند علاج ایڈوکیسی سے کام لیا جائے کہ مخالفت و مزاحمت سیاسی ہے، جس پر مزید سیاست نہیں کرنی چاہیے، لیکن اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں ایک ہی ملک، ایک ہی پارلیمان کی جماعتیں ہیں اور ایک ہی نظام میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ بہت اطمینان بخش ہے کہ چوہدری مونس الٰہی نے اس کار عظیم اور کلمہ حق (بحالی کالا باغ ڈیم منصوبہ) کا آغاز کسی روایتی پریس کانفرنس یا بیان بازی کی بجائے، علمی معاونت حاصل کرکے موضوع پر بین الاقوامی سمپوزیم سے کیا ہے۔ ان کی سنجیدگی اور فہم کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ سمپوزیم کے فالو اپ میں وہ منصوبے کی بحالی کو کابینہ کے ایجنڈے پرلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو دلی خلوص سے ملین ڈالر ٹپ ہے کہ وہ اپنی کھوئی قومی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے ’’واٹر سنچری‘‘ میں کالا باغ ڈیم پر اپنے روایتی مخالفانہ موقف پر نظرثانی کرکے پنجاب کا دل جیتے اور پارٹی کے سابقہ قلعے لاہور میں آ کر چوہدری صاحبان سے بھی اس پر ڈائیلاگ کرے کہ یہ تجویز بطور حکومتی اتحادی ان کی جانب سے آئی ہے۔ اس کے لیے چوہدری مونس الٰہی اے این پی کے وفاقی و صوبائی منتخب نمائندگان سے بھی مشاورت اور رابطے کریں، ایسے میں وہ اپنے غیر علانیہ روایتی غیر سیاسی حلیف مولانا فضل الرحمٰن کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنے دست تعاون سے کالا باغ ڈیم کے پورے خطے میں اپنی سیاست و مقبولیت کا سکہ چلا سکتے ہیں۔ رہ گئی ن لیگ تو اس کا تعاون حاصل کرنا ناگزیر ہے، اگرچہ اس کا حامی موقف بہت واضح ہے لیکن جو دوریاں سیاسی انتشار میں تبدیل ہو چکی ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ حکومت اس معاملے میں ن لیگ سے بلاجھجک رابطے کا حوصلہ دکھا کر ملکی سیاسی فضا کو کچھ بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے چین اور روس جیسے دوست ممالک سے ’’باہمی مفاد‘‘ کی بنیاد پر یہ مسئلہ بھی باآسانی حل ہو سکتا ہے لیکن ان کے مفاد کی مدت مقرر ہونی چاہئے۔