Mohd Mehdi 7

اسرائیل ان ایکشن

محمد مہدی
فروری ۷۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ 

حرین کے وزیر دفاع نے تلوار اپنے ہاتھوں پر بلند کی اور اسرائیلی وزیر دفاع کی طرف بڑھاتے ہوئے ان کو پیش کردی۔ند کر سکتے ہیں۔

حرین کے وزیر دفاع نے تلوار اپنے ہاتھوں پر بلند کی اور اسرائیلی وزیر دفاع کی طرف بڑھاتے ہوئے ان کو پیش کردی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ آخر اسرائیل کے بڑھتے قدم جو ابراہام معاہدے کی صورت میں خلیجی ممالک کی سرزمین پر محسوس ہونے لگے ہیں وہ کس قدر جم گئے ہیں۔ گزشتہ بدھ کی رات کو اسرائیلی ایئر فورس کا بوئنگ سیون زیرو سیون سعودی فضائی حدود سے پرواز کرتا ہوا بحرین کے دارالحکومت منامہ میں اتر گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کامیابی کے مزید احساس کے ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے بحرین کی سرزمین پر وارد ہو گئے۔ اس موقع پر اسرائیلی وزارت دفاع کے پولیٹیکل ڈیفنس بیورو کے سربراہ ضوہر پالتی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوجی طیارے کی بحرین میں آمد کی نوعیت بذات خود ایک غیرمعمولی سنگ میل ہے۔ کیونکہ اس سے قبل اسرائیلی فضائیہ کا کوئی طیارہ بحرین میں اس طرح نہیں اترا اور بلاشبہ اس میں نہ صرف بحرین بلکہ پورے خطے کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت اور اشارہ موجود ہے۔ کیونکہ اگر ہم خلیج فارس اور ایران کو ذہن میں رکھیں تو صرف 120 میل کا فاصلہ بن جاتا ہے اور ہم بھی کوئی زیادہ دور نہیں ۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ دورہ صرف ایک دورہ ہی نہیں تھا بلکہ اس دورہ میں اسرائیل نے یہ سنگ میل بھی عبور کیا کہ بحرین ابراہام معاہدے کے بعد خلیجی ممالک میں وہ پہلا ملک بن گیا کہ جس نے اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس سے قبل عرب سلطنتوں میں مراکش اس کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ کر چکا ہے۔ بحرین عرب دنیا کا دوسرا اور خلیجی ممالک کا پہلا ملک بن گیا ہے۔ اس معاہدے میں صرف رسمی دفاعی تعلقات کی بابت ہی گفتگو نہیں کی گئی بلکہ بحرین کے ساتھ یہ نہایت دوررس اثرات کا حامل بھی ہوگا۔ اس کی رو سے یہ دونوں ممالک ایڈوانس انٹیلی جنس میں تعاون جبکہ مشترکہ فوجی مشقوں کا فریم ورک طے کرینگے اس کیساتھ ساتھ دفاعی صنعت میں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں گے۔ اب یہ ایک دوسرے کا ہاتھ کیسے بٹائیں گے، تو اس کو سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ بحرین انٹیلیجنس، مشترکہ فوجی مشقوں اور دفاعی صنعت کی مصنوعات میں سے کچھ بھی اسرائیل کو ایکسپورٹ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ جبکہ یہ تینوں ’’ مصنوعات‘‘ وہ اسرائیل سے ہی خریدے گا اور جواب میں اسرائیل نہ صرف اسٹرٹیجک حوالے سے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بحرین جیسی تیل کی دولت سے مالا مال ریاست کی دولت کا بہاؤ بھی اسرائیلی خزانوں کا رخ اختیار کر لے گا۔ یعنی ہر اعتبار سے اسرائیل منافع ہی منا۔

یمن کے بگڑتے حالات اور اس کے حوالے سے ایران اور عرب ملکوں کی عاقبت نااندیشی نے حالات کو اس حد تک خراب کردیا ہے کہ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ سکیورٹی کے معاہدوں سے لے کر فوجی طیاروں کے فضائی حدود کے استعمال تک سب کچھ اسرائیل کی مرضی و منشا کے مطابق وقوع پذیر ہو رہا ہے اسرائیلی وزیر دفاع نے بحرین کے دورے کے دوران اس معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کو’’ تاریخی ابرہام معاہدہ‘‘ کا تسلسل قرار دیا اب یہ تسلسل کہاں تک جا سکتا ہے اس کو واضح کرنے کیلئے انہوں نے ایک اور یہ قدم اٹھایا کہ وہ بحرین میں مقیم امریکی ففتھ نیول فلیٹ کا دورہ کرنے بھی گئے۔ یہ امریکی نیول فلیٹ اس سارے خطے میں امریکی فوجی مفادات کا نگہبان اور طاقت کی علامت کے طور پر موجود ہے۔ یہیں سے امریکی سینٹرل کمانڈ ( سینٹ کام) کے بھی بہت سارے فوجی آپریشن کیے جاتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا یہ دورہ اس لیے بہت اہم ہے کہ حال ہی میں امریکی ففتھ نیول فلیٹ کی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی Unmanned بحری فوجی مشقوں آئی ایم ایکس کا اہتمام کیا گیا اور ان مشقوں میں اسرائیلی بحریہ نے بھی شرکت کی۔ آنکھیں کھول دینے کے لیے بلکہ اچھی طرح سے کھول دینے کے لیے یہ جاننا بہت اہم ہے کہ اس میں اسرائیل کے ساتھ پہلی بار ان ملکوں کی بحریہ نے بھی شرکت کی جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے، جن میں سعودی عرب اور پاکستان بھی شامل تھے۔ خیال رہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار تھا کہ پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ ان بحری فوجی مشقوں میں شمولیت اختیارکی۔بہر حال اسرائیل صرف یہیں تک محدود نہیں۔ ترک صدر اردگان نے گزشتہ ہفتے یوکرائن کا دورہ کیا۔ یوکرائن روس کشیدگی عالمی منظرنامے کی اس وقت اہم ترین خبر ہے اس کشیدگی کے بڑھنے سے یورپ کو روسی گیس کی ترسیل رک سکتی ہے جو یورپ کے لیے بہت بڑا بحران ہوگا۔ جب یوکرائن کا دورہ ختم کرکے ترک صدر انقرہ پہنچے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ترکی کے لیے اسرائیلی گیس خرید سکتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ ترکی کے لیے بلکہ یورپ کے لیے اسرائیلی گیس کی ترسیل بھی کروا سکتےہیں اور اس حوالے سے گفتگو اسرائیلی صدر کے اگلے ماہ کے وسط میں دورہ ترکی کے دوران، ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ ترک صدر نے دو فروری کو عراق کے نیم خود مختار علاقے عراقی کردستان کے صدر نوشیروان بارزانی سے بھی ملاقات کی اور اس ملاقات کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گیس کے معاملات میں وہ عراق کو بھی شامل کرنا چاہتے ہے اور اس حوالے سے ان کو عراقی کردستان کے صدر نے یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ ذرا اس سب کو روس یوکرائن تنازعے کے تناظر میں دیکھیں تو سب سمجھ میں آجائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں پر کھڑی ہے کیونکہ نہ تو خلیج فارس ہم سے دور ہے نہ ہی ہم عرب اور خلیجی ممالک میں ہونے والے واقعات پر آنکھیں بند کر سکتے ہیں۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.