ذمہ دارانہ رویہ درکار ہے
محمد مہدی
جنوری ۳۱۔۔۔۲۰۲۲
شکریہ روزنامہ جنگ
ابھی کل ہی کی بات محسوس ہوتی ہے، جب سینیٹر مشاہداللہ خان کے ساتھ قہقہوں بھری ملاقاتیں، اسلام آباد ہویا لاہور میں ان کی آمد ، زندگی کا ایک لازمی حصہ تصور ہوتی تھیں مگر اب سال ہونے کو آگیا، کیا رفتار ہے زمانے کی، ان کی صاحبزادی کی شادی کی تقریب میں حاضر لیکن خیالوں میں گم، اپنے اس بزرگ مرحوم دوست سے جڑی یادوں میں غرق رہا ان کے گھر خوشی کی تقریب میں نظریں ان کو ہی تلاش کر رہی تھیں۔ ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ ان کی صاحبزادی کو رخصت کیا۔
اس شادی کی تقریب میں بھی موضوع سخن بہرحال سیاست ہی تھا۔ عمران خان چین سرمائی اولمپکس کی تقریبات کے سلسلے میں روانہ ہورہےہیں اور اس بات پر دوست احباب بہت پریشان تھے کہ اب چین سے بھی تعلقات اس نوعیت پر آ موجود ہوئے ہیں کہ وہاں پر جانے کے لیے بھی کوئی بہانہ چاہئے اور بہانہ بھی ایسا کہ جس سے میزبان انکار نہ کر سکے ۔
وطنِ عزیز کے لیے سفارتی طور پر شدید بحران کی کیفیت یہ ہے کہ ہم تمام تر کوششوں اور عمران خان کے اپنے انٹرویو زکے باوجود جوبائیڈن سے ٹیلی فون کال کروانے میں ناکام رہے۔ چلو امریکہ سے بگاڑ اگر اس حد تک ہو چکا ہے تو معاملات کم از کم اپنے پڑوسی ملک چین سے تو مزید بہتری کی جانب گامزن ہونے چاہئیں تھے کیونکہ 2015 کے سی پیک کے معاہدے کے بعد تو اس میں معاشی جدت بھی آ گئی ہے مگر اس معاشی جدت کو تعلقات کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنے کی بجائے 2018 میں تبدیلی کے وقوع پذیر ہونے کے بعد اسے باہمی عدم اعتماد کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں اور دوبارہ دہرائوں گا کہ چینیوں کے لیے جہاں سی پیک کو نقطۂ انجماد پر پہنچا دینا شدید باعثِ تشویش ہےہ وہیں ان کے لیے شدید پریشانی کا باعث یہ بھی ہے کہ چینی کمپنیوں کو ان کی واجب الادا رقم کیوں ادا نہیں کی جا رہی ؟ کاروبار بھلا آگے کیسے بڑھے گا ؟ یہ اگرکسی اور کی خوشنودی کی غرض سے کیا جا رہا ہے تو ادھر سے بھی کچھ نہیں مل رہا تو دونوں کو ناراض کرکے کیا حاصل کیا جانا مقصود ہے؟ یہ ایک ایسا معمہ ہے جس کا جواب اس وقت کسی کے پاس موجود نہیں ہے۔
چین میں صرف تمام مہمانوں کے ہمراہ مشترکہ فوٹو سیشن کے حوالے سے رضامندی ظاہر کی گئی ہے۔ ورنہ ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ملاقات بھی ون ٹو ون کر سکیں۔ اس ناکامی کو اب کامیابی میں بدلنے کے لیے ان کی اعلیٰ ترین شخصیت سے ون ٹو ون ملاقات ممکن بنانے کے حیلے سوچے جا رہے ہیں۔ یہ بات طےہے کہ پاکستان کے عوام اپنے اداروں سے محبت کرتے ہیں، جس کے سبب دنیا میں ان اداروں کو پاکستان کے ساتھ معاملات طےکرنے کے لئے اہمیت حاصل ہے ۔ ان کو ساتھ لے جا کر ممکنہ ناکامی، بے قدری اور تنہا خود کو مورد الزام ٹھہرائے جانے سے بچنے کے لئے حربے اختیار کئے جا رہے ہیںجو ایک تشویش ناک عمل ہے۔
بہرحال اگر قومی سلامتی کے امور پر اتنی سمجھ بوجھ ہوتی توحالات کو اس نہج پر صرف ایک شخصیت کی دشمنی میں کیوں پہنچایا جاتا؟ عالمی برادری میں پاکستان کی اہمیت تسلیم شدہ ہے مگر اب یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ حالات سدھارنے کے لیے پاکستان میں جلد انتخابات ،جو جمہوری طور پر منعقد ہوں،کے منتظر ہیں تا کہ پاکستان کی منتخب حکومت سے گفتگو کی جا سکے جس کی ساکھ بھی ہو۔
ہم سے تو اس وقت افغانستان تک بات نہیں کر رہا۔ دوست تو بھارت سے بھی سیاچن پر معاملات طے کروانا چاہتے ہیں کوشش میں بھی مصروف ہے مگر حکومت کی نمائندہ حیثیت کے سامنے لگا سوالیہ نشان اس کے بھی آڑے آ رہا ہے۔
ویسے اس وقت دنیا میں چین سے جڑے اور معاملات بھی زیر بحث ہیں جیسے کہ فرانس کی پارلیمنٹ نے چین میں ایغور مسلمانوں کے حوالے سے قرارداد پاس کی ہے۔ چینی دوستوں سے پاکستان میں یا چین میں جب کبھی ملاقات رہی ان سے ہمیشہ یہ گفتگو کی کہ چین کو اپنی قومی سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کی غرض سے درکار ہے کہ ایغور مسلمانوں کے علاقے کو دنیا کے لیے کھول دے تا کہ دنیا دیکھ سکے کہ چین کیا اقدامات کر رہا ہے اور شہریوں میں سے کسی بھی گروہ سے امتیازی سلوک کرنے کی پالیسی پر کاربند نہیں۔
ورنہ انسانی حقوق کی بنیاد بنا کر اس مسئلہ پر پوائنٹ سکورنگ ہوتی رہے گی حالانکہ دنیا کے سامنے اس سے بڑے اور عالمی امن کے لیے باعث خطرات مسائل کشمیر اور فلسطین کی صورت میں موجود ہیں۔ مگر دنیا اس پر خاموش ہے نا صرف اس پر خاموش ہے بلکہ اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ سب کے سب دنیا میں ہونے والے واقعات کو صرف اس کے چشمے سے دیکھے، جیسے ابھی حال ہی میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں قرارداد کا معاملہ درپیش رہا۔ ہولوکاسٹ کے حوالے سے جو کہانی، جو اعداد و شمار بیان کیے گئے ہیں ان کو حتمی تسلیم کیا جائے اور ان تصورات کے برعکس کسی بھی قسم کی تحقیق پر مکمل طور پر پابندی عائد ہونی چاہیے تاکہ جو تاریخ، جو واقعات دنیا کو پڑھا دیے گئے ہیں ہر نسل وہی پڑھتی رہے۔ حالانکہ جس واقعے کو تسلیم کروانے کی غرض سے قانون سازی کا سہارا لینا پڑتا ہے طاقت کا استعمال ہوتا ہے اس سے یہ امر طے شدہ ہوتا ہے کہ وہاں پر کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔
یہ معاملات کو مزید مشکوک بنا دیتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہودیوں یا کسی بھی قوم کی نسل کشی انتہائی قابل مذمت و قابل نفرین عمل ہے مگر یہ کس حد تک وقوع پذیر ہوا اس پر تحقیق کے دروازے بند کرنے کی کوشش بھی ناقابلِ قبول اور ناقابلِ فہم ہے خاص طور پر اس عہد میں جب دنیا میں میڈیا کی آزادی جمہوریت کا مسلمہ اصول ہو یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے ملک میں اس مسلمہ اصول کو بھی بری طرح پامال کیا جا رہا ہے۔