Mansoor Afaq 4

وہ بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے

منصور آفاق
مارچ ۴۔۔۔۲۰۲
بشکریہ روزنامہ جن

رجب کے مہینے سے کوئی ایک نہیں بلکہ متعدد روایات وابستہ ہیں۔ اسی مہینے میں آج سے نہیں بلکہ کئی سو سال سے ہلچل رہی ہے۔ اسی طرح آج کل رجب اور مارچ کی مصروفیات بھی ملی جلی نظر آرہی ہیں۔ پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا ذکر کریں تو ہر روز ایک سرپرائز مل رہا ہے، اور سرپرائز بھی دو قسم کے ہیں۔ بلکہ سرپرائز سے یاد آیا کہ ان سرپرائزز کا آغاز 27 فروری سے ہوتا ہے، اور ہر سال ہوتا ہے جب انڈیا کی بزدلانہ کارروائیوں کی بات کریں اور پاکستان کی جرأت مند اور مضبوط افواج کا ذکر کریں، یا پھر ہمارے شاہینوں کا ذکر کریں، ہمارے ہوا بازوں کا ذکر کریں جو پلک جھپکے بغیرہمارے ملک کے دشمنوں کو آسمان سے زمین پر گرادیتے ہیں۔ خیر ہر سال کی طرح اس سال بھی سرپرائز ڈے پاکستانی عوام نے جوش و خروش سے منایا اور دنیا کو حق اور باطل کا فرق باور کروایا۔

اس سب کے بعد شروع ہوتا ہے سیاسی سپرائزز کا سلسلہ جس کا میں نے آغاز میں ذکر کیا تو وہ جو دو سرپرائز ہیں ان میں سے ایک عوام اور دوسرا اپوزیشن کے لیے ہیں۔ عوام کیلئے پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ایک بہت بڑا سرپرائز تھا۔ اپوزیشن کیلئے البتہیہ سرپرائز تپتی دھوپ کا منظر پیش کررہا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں عوام کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنی سیاست بچانے آجاتی ہیں۔ اس وقت یہ لوگ کنفیوژ ہو چکے ہیں کہ جس مہنگائی کے نام پر یہ جلسے جلوس اور تحریکیں چلاتے پھر رہے ہیں، اس کے خلاف تو وزیر اعظم عمران خان اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار پہلے ہی گرینڈ آپریشن کا آغاز کر چکے ہیں۔ خان صاحب نے اگلے بجٹ تک پیٹرول کی قیمت کو فکس کردیا ہے۔

یہ وہ اقدامات ہیں جن سے باقی اشیائے صرف کی قیمتوں میں بھی کمی آئےگی اور قیمتیں ا سٹیبل ہو سکیں گی۔ یہی نہیں بلکہ صنعتی پیکیج کا اعلان اور ایسے متعدد اقدامات ہیں جن کی وجہ سے اپوزیشن کی اپوزیشن کا مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ باقی جو کسر تھی وہ وزیر اعظم کے دورے سے نکل گئی، خان صاحب نے چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کی، عثمان بزداربھی ہمراہ تھے، عثمان بزدار کووہاں ملنے والی عزت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ق لیگ تحریک انصاف کے ساتھ کس طرح جڑی ہوئی ہے اوروزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کتنا ریگارڈ کرتی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ نہ خان صاحب پریشان ہیں اور نہ ہی وزیر اعلیٰ کو کوئی خطرہ ہے۔

پنجاب سے جنوبی پنجاب کیلئے ایک بڑی خوشخبری ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے۔ سردار عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب کیلئے ملازمتوں کا کوٹہ فکس کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگیا ہے۔ کابینہ نے اتفاقِ رائے سے جنوب کے عوام کیلئے سرکاری ملازمتوں کا 32 فیصد کوٹہ مختص کردیا ہے۔ اور اب کمیٹی کو ہدایت دی گئی ہے کہ پسماندہ اضلاع میں بھی کوٹہ فکس کرنے کیلئے سفارشات پیش کی جائیں۔ یہ وہ فیصلہ ہے جس سے جنوب کا معیارِ زندگی ہی بدل جائے گا، اور محرومیوں کے خاتمے کیلئے اس سے بہتر حکمتِ عملی کیا ہوگی کہ جنوب کے ٹیلنٹ کو سامنے لایا جائے، ان کو مین اسٹریم میں جگہ دی جائے، وہ انتظامی نظام کا حصہ بنیں، اپنے ریجن کی اور پورے پنجاب کی خدمت کرسکیں۔

جیسا کہ آغاز میں مہنگائی کے خلاف کریک ڈاؤن کا ذکر کیا، اس حوالے سے سہولت بازاروں کا قیام بھی لائقِ تحسین ہے۔ پنجاب بھر میں ان بازاروں کے قیام سے نہ صرف کم قیمت پر اشیائے ضروریہ عوام کو میسر آئیں گی بلکہ مارکیٹ سے کم قیمت پر دکانیں بھی کرایہ پر فراہم کی جارہی ہیں۔ تاکہ یہاں سے کاروبار بھی چلے اور عوام کو فائدہ بھی پہنچے۔ اس حوالے سے کابینہ اجلاس میں پنجاب سہولت بازار اتھارٹی ایکٹ 2021 کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب روڈ سیفٹی اتھارٹی ایکٹ 2020 کی منظوری بھی دی گئی اور ان کلاسیفائیڈ جنگلات کو پروٹیکٹڈ جنگلات قرار دینے کا فیصلہ بھی اسی اجلاس میں کیا گیا۔

سالٹ رینج نیچرل ریزرو کمپلیکس کے قیام کیلئے بھی وزیر اعلیٰ کی کابینہ کی جانب سے منظوری دے دی گئی ہے، دوسری جانب پنجاب پرائیویٹ اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی منظوری بھی خوش آئند ہے۔ اس سیکٹر کو منظم انداز میں ریگولرائز کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ نجی اسکولوں کا تعلیمی نظام میں بہت اہم کردار ہے، اس کو اصولوں کے ساتھ لیکر چلنا والدین، اساتذہ، طالب علموں اور خود اسکول مالکان کیلئے انتہائی اہم ہے۔ اس کے علاوہ محکمہ ہائیر ایجوکیشن کی ایکریڈیشن کمیٹی کے قیام کی منظوری بھی دی گئی اور متحدہ علماء بورڈ کو ریگولیٹ کرنے کیلئے بل پیش کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس میں اکاؤنٹس کے شعبے کی اسامیوں کی منظوری بھی اہم فیصلوں میں شامل ہے۔اب دیکھتے ہیں مارچ کے مہینے میں ہونے والی سیاسی ہلچل کی طرف۔

مولانا فضل الرحمٰن نے 48گھنٹوں میں خوش خبری دینےکا اعلان ہے۔ حیران ہوں ابھی 48 گھنٹے گزر جانے کے بعد لوگوں کو کیا جواب دیں گے کیونکہ حقیقت حال یہ ہے کہ چوہدری برادران کے بغیر عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی اور چوہدری برادران کے بہت قریبی حلقوں سے جو اطلاعات مجھے ملی ہیں ان میں واضح ترین بات یہ ہے کہ ’’وہ بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتے ‘‘۔دوسری بات پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ابھی شروع ہونا ممکن نہیں۔ 22اور23مارچ کو قومی اسمبلی میں جو او آئی سی کے وزارئے خارجہ کی کانفرنس ہو رہی ہے اس کےلیے اسمبلی میں رینوویشن کاکام جاری ہے۔ یعنی 23مارچ سے پہلے قومی اسمبلی اجلاس ممکن نہیں۔ یہ 48گھنٹوں والے پتہ نہیں لوگوں سے کیوں غلط بیانی کر رہے ہیں۔

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.