Mahmood Sham 6

محلّے کی اجتماعی صلاحیت آزمانے کا وقت

محمود شام
فروری ۶۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنا
مہ جنگ

آج اتوار ہے، اپنے لاڈلوں سے ملنے، ان کی ڈھیر ساری باتیں سننے، حال کا ماضی اور ماضی کا مستقبل سے رابطہ کروانے کا دن۔ میں اپنی جگہ بہت خوش ہوں کہ ملک بھر میں اتوار اہل خانہ کے درمیان گزارنے کا رجحان بحال ہوگیا ہے۔ مغرب میں جہاں مشترکہ خاندانی روایات ختم ہوگئی ہیں۔ وہاں بھی ہفتہ اتوار گھر والوں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ اتنی قربت سے کہ وہ لوگ کوئی فون نہیں سنتے۔ کوئی ای میل نہیں دیکھتے۔ ہفتہ اتوار دفتری میٹنگیں نہیں رکھی جاتیں۔ کسی بھی معاشرے کی بنیادی وحدت گھر ہی ہے۔ گھر سے محلّہ۔ محلّے سے شہر۔ شہر سے صوبہ۔ صوبے سے وفاق۔ آج بات محلّے داری پر ہوگی۔ اس سے پہلے جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کو احتساب عدالت سے با عزت بری ہونے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ یہ ہدیۂ تبریک بھی کہ انہوں نے آزادیٔ اظہار۔ آزادیٔ صحافت کی روایت کو تابندہ رکھا۔ حوالات کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کووڈ کی عالمگیر وبا کے دنوں میں جراتمندی سے قید تنہائی کاٹی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سرخرو کیا۔ صحافتی حلقوں کو۔ میر خلیل الرحمن کے قائم کردہ جنگ گروپ کے تمام ایڈیٹروں۔ سب ایڈیٹروں۔ رپورٹرز دیگر شعبوں کے اعلیٰ عہدیداروں۔ عام کارکنوں۔ پرنٹنگ پریس کے جفاکشوں سب کو یہ فخر اور طمانیت ہوگی کہ ان کے سربراہ نے نادیدہ اور دیدہ قوتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ فتح بالآخر حق کی ہوتی ہے۔

ہماری راتیں تو کئی دہائیوں سے اپنے ہم وطنوں کی پریشان حالی پر جاگتے گزرتی ہیں۔ اکثر سحر دم اپنے قادر مطلق سے فریاد کرتا ہوں کہ وسائل سے مالا مال۔ اہم محل وقوع والی سر زمین عنایت کی ہے۔ ہمیں اس عظیم مملکت کے شایان شان حاکم بھی عطا کردے۔ کیا نہیں ہے۔ ہمارے پاس ! سمندر دریا۔ پہاڑ۔ سونا۔ تانبا۔ تیل۔ گیس۔ کوئلہ۔ ذمہ دار۔ با بصیرت قائد نہیں ہیں۔ کھلی آنکھوں والے منیجرز نہیں ہیں۔ لیڈر بے شُمار ہیں۔ لیڈر شپ نہیں ہے۔اقتصادی طور پر ان دنوں جو حالات ہیں وہ کسی جنگی صورت حال سے کم نہیں ہیں۔22کروڑ میں سے چند لاکھ کو چھوڑ کر باقی سب مہنگائی کے سامنے عاجز ہیں۔ حکمرانوں کے حامی ہوں یا اپوزیشن جماعتوں کے۔ سب دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے حاصل کرپاتے ہیں۔ دکاندار۔ صنعت کار۔ اپنے ہم وطنوں کی مجبوریوں سے منافع کمارہے ہیں۔ وزیر اعظم نے خود کہا کہ کتنی کمپنیوں نے سینکڑوں ارب روپے منافع حاصل کیا ہے۔کمپنی مالکان کو وزیر اعظم نے قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے نہیں کہا یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافہ کردیں۔

میں اتوار کو اپنی اولادوں سے ملنے ملانے کے ساتھ نماز عصر کے بعد محلے والوں کے بھی دکھ درد جاننے کی التجا کرتا رہا ہوں۔ اب اس سکون چھیننے والی مہنگائی کے عالم میں تو میں محلے داری کو ناگزیر سمجھ رہا ہوں۔ جس طرح خاندان کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے جڑا ہونا چاہئے۔ اسی طرح۔ گلی کوچوں کے مکینوں کا بھی آپس میںربط ضروری ہے۔ آپ کا مذہب۔ زبان۔ نسل۔ فرقہ کچھ بھی ہو۔ جب آپ ایک محلّے میں رہ رہے ہیں۔ تو آپ ایک برادری ہیں۔آپ کو ایک دوسرے کے دُکھ درد میں کام آنا چاہئے۔ اپنے وسائل اور اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال ہونا چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک اہم ہے۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ اقتصادی حوالے سے اس مشکل گھڑی میں محلّے کی اجتماعی صلاحیت کے ساتھ زندگی پر یلغار کرنے والے مصائب کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ گزشتہ چار پانچ عشروں میں ہمیں ایک دوسرے سے دور کیا گیا ہے۔ کہیں لسانی کہیں نسلی۔ کہیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہم اپنے ہمسایوں کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو یہ عالم تھا ہی چھوٹے شہروں۔ قصبوں اور بعض دیہات میں بھی محلے داری کی حسین روایت کو تار تار کردیا گیا ہے۔ آپ کی زندگی کوجو فیصلے اجیرن بنارہے ہیں۔ ایک محلّے کی حیثیت سے اس میں رہنے والوں کا یہ سماجی اور قانونی حق ہے کہ وہ اس فیصلہ سازی میں اپنی شرکت طلب کریں۔ فیصلوں کے شفاف ہونے کا مطالبہ بھی آپ کے اختیار میں ہے۔ آپ کے کونسلرز چیئرمین۔ میئر۔ ایم پی اے۔ ایم این اے آپ کو ہر قسم کی معاونت سہولت پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔

آپ اپنے محلے کی سطح پر یکجہتی کی بجائے سیاسی۔ لسانی۔ نسلی وابستگی کی بنیاد پر بٹ گئے ہیں۔ اس لیے محلے داری کمزور ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے میں مارکیٹ طاقت ور ہوگئی ہے۔اپنی بہتر زندگی اچھے ماحول۔ اولاد کی نتیجہ خیزپرورش۔ جیون کی آسانیوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب رہتے ہوئے آپ کسی مسجد پارک یا کسی کے گھر اکٹھے نہیں ہوتے۔ کمیونٹی ارکان مہنگائی کے مقابلے میں حکمتِ عملی نہیں بناتے۔ سماجی انصاف کے لیے کوئی اجتماعی قدم نہیں اٹھایاجاتا۔ انسان کی سب سے بنیادی ضرورت خوراک ہے۔ جس کے بغیر سانس کا تسلسل نہیں رہ سکتا۔ خوراک کے بعد صحت۔ پھر تعلیم۔ اس کے لیے محلّے داری سب سے زیادہ معاون ہوسکتی ہے۔ سب سے زیادہ اذیت بھی کھانے پینے کی اشیا کی بڑھتی قیمتوں سے ہوتی ہے۔مہذب حکومتیں سب سے زیادہ خیال کھانے پینے کی اشیا کی درآمد برآمد کا رکھتی ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے۔ یہاں کھانے پینے کی ساری چیزیں زمین سے پیدا ہوتی ہیں مگر ہم ان کی منصوبہ بندی نہیں کرتے ہیں۔ منافع کی ہوس نے دکانداروں، تاجروں، صنعت کاروں کو بے حس بنادیا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی غریبوں کو آسانیاں فراہم کرنے کی بجائے منافع خوری کا ذریعہ بن گئی ہے۔ منافع خوروں نے ہی آن لائن خریداری کے مراکز کھول لیے ہیں۔ بچوں نوجوانوں میں گھر بیٹھے غیر ضروری چیزیں منگوانے کا ولولہ پیدا کردیا ہے۔

ہمارے خطّے میں تو ہزاروں سال پہلے سے کمیونٹی سسٹم موجود تھا۔ جسے اب نئی اصطلاحات میں Neighbourhoodکا نام دیا جارہا ہے۔ چھوٹے شہروں۔ قصبوں۔ میگا شہروں سب میں ضرورت ہے اس محلے داری کو بحال کرنے کی۔ یہ ہمارے سماج کو بھی مضبوط کرسکتی ہے۔ ہماری زندگیوں سے تنہائی کا احساس بھی ختم ہوگا۔ بے بسی کی اذیت بھی۔ محلّے داری خیال ہم نفساں ہے اور ایسا فلسفہ۔ جس میں دیوار بہ دیوار ہمسائے۔ افراد۔ قومی زندگی میں ایک اہم اور فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔

حکومتیں عالمی اقتصادی اداروں کے سامنے بے بس ہیں۔ معیشت کے ماہرین اپنی فی ایکڑ زرعی پیداوار بڑھانے اپنے معدنی وسائل کی دریافت اور استعمال سے گریزاں ہیں۔ ایسے میں محلے کی اجتماعی صلاحیت ہی فیصلہ کن رہ سکتی ہے۔ اپنے اپنے محلّے میں سر گرم ہوجائیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامیں۔ مقامی مافیاز کے سامنے ڈٹ جائیں۔ عالمگیر مافیاز کی سازشوں کو بھی بے نقاب کریں۔ خاندان مضبوط۔ محلّہ طاقت ور تو قوم بھی متحد ہو جائے گی۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.