امریکہ روس، پاکستان کس کے ساتھ؟
محمود شام
فروری ۲۷۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جن
آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کے ساتھ ایک نشست کا دن۔ یہ نئی نسل ہم سے زیادہ باخبر ہے۔ ان کے ہاتھ میں موجود جادو کی ڈبیا جسے اسمارٹ فون کہتے ہیں، انہیں ماضی، حال اور مستقبل سے باخبر رکھتی ہے۔
اب دنیا کی نظریں یورپ میں یوکرین اور روس پر لگی ہوئی ہیں۔ یورپ والوں نے اتنی تباہ کن جنگیں دیکھی ہیں کہ اب وہ ذرا سی جھڑپ سے بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یوکرین کا مسئلہ 2014سے آتش فشاں بنا ہوا ہے۔ جب روس نے کریمیا اور دیناس کو دوبارہ اپنے گلے لگا لیا۔ ایران نے یوکرین پر روسی حملے پر اپنے پہلے تبصرے میں نیٹو کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ مغرب کو تہذیب اور تحقیق کا علمبردار کہا جاتا ہے۔ ہماری ذہین اولادیں مغرب میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلے لیتی ہیں لیکن امن کے یہ چیمپئن نیٹو افواج کی موجودگی کا، کمیونزم کے خاتمے کے بعد کوئی جواز پیش نہیں کر سکے ۔ نیٹو کے اکثر اہم میٹنگوں سربراہی اجلاسوں میں مجھے ایک صحافی کی حیثیت سے برسلز، برلن، استنبول اور شکاگو جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ میں نے وہاں یہی سوال اٹھایا کہ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(نیٹو) کا قیام 1949میں امریکہ، کینیڈا اور متعدد مغربی ممالک سوویت یونین کے مقابلے میں اجتماعی دفاع کے لیے عمل میں لائے تھے۔ جب 25دسمبر 1991میں سوویت ہتھوڑے والا جھنڈا کریملن سے ہمیشہ کے لیے اتار لیا گیا تو اب کمیونزم سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نیٹو کے مقابلے کے لیے وارسا ایکٹ کے تحت جو فوجی اتحاد قائم کیا گیا تھا وہ بھی اب نہیں رہا تو نیٹو کا کیا جواز ہے؟ اس کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ملتا تھا۔ البتہ یہ کہا جاتا تھا کہ بعض سرکش ریاستوں اور غیر ریاستی کرداروں کو سرنگوں کرنے کے لیے نیٹو کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اکتوبر 2001میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکی صدر نے رعونت کے ساتھ پوری دنیا کو دھمکی دی تھی اور پوچھا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا نہیں؟ یہی جملہ اب یوکرین کے صدر بہت بےبسی سے ادا کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں تو مجھے کوئی ساتھ دیتا نظر نہیں آرہا۔ میں ہر ایک سے پوچھ رہا ہوں ’’کیا آپ ہمارے ساتھ ہیں؟‘‘۔
عمران خان کی خوش قسمتی دیکھئے کہ انہیں تاریخ میں یہ اہمیت میسر آگئی کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد روسی صدر پیوٹن سے ملنے والے وہ پہلے غیرملکی لیڈر ہیں۔ دونوں کو پہلے سے یہ اندازہ تھا۔ اس کے باوجود اگر وہ مل رہے تھے تو یقیناً کوئی اہم ایجنڈا ہوگا۔ ہم نے پچھلے کالم میں کہا تھا کہ کٹھ پتلیاں تو ہم سب ہیں۔ اب یہ کہنا چاہوں گا کہ پوری پاکستانی قوم مجھ سمیت عالمی امور کی بھی ماہر ہے۔ جنگوں کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتی ہے۔ ہم سب ماہرینِ معیشت بھی ہیں۔ ہم اپنے گھروں، خاندانوں اور محلوں کے مسئلے تو حل نہیں کر پاتے لیکن دنیا کے مسائل کے حل ہمارے پاس موجود ہوتے ہیں۔ ہماری تنقید کا محور حالات نہیں، شخصیات ہوتی ہیں۔ کچھ بغضِ عمران میں مبتلا ہیں۔ عالمی صورت حال ہو یا ملکی وہ اسے عمران خان کے حوالے سے ہی دیکھتے ہیں۔ اب کہا جارہا ہے کہ اس دورے کا کیا فائدہ؟ پابندیاں لگ گئیں، کہاں گئی گیس پائپ لائن اور دوسرے معاملات۔ دورہ ملتوی کردینا چاہیے تھا۔ وزارتِ خارجہ اگردورہ ملتوی کردیتی تو یہی ناقدین کہہ رہے ہوتے کہ دورہ ہر صورت میں کرنا چاہیے تھا۔ میرے نزدیک تو پاکستان کو یہ بہت اہم موقع ملا ہے۔ چین سے ہمارے گہرے تعلقات ہیں۔ چین اب پوری طرح روس کے ساتھ ہے۔ گزشتہ دنوں بیجنگ میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں یوکرین کی صورت حال، روس، پاکستان اور کئی دیگر ملکوں کے زیر غور آئی، کوئی لائحہ عمل ضرور طے ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم بیجنگ سے واپسی کے بعد قوم کو اعتماد میں لیتے تاکہ بیجنگ اجلاس کی عالمی اہمیت کا احساس پاکستانیوں کو ہوتا۔ پھر روس کے دورے پر روانہ ہوتے۔ ماضی میں وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری یا وزیر اسلام آباد کے علاوہ کراچی اور لاہور کے سینئر صحافیوں، ایڈیٹروں کو آف دی ریکارڈ پس منظر سے آگاہ کرتے تھے۔ اب سوشل میڈیا کے فعال ہونے کے بعد ایسی بریفنگ اور زیادہ ضروری ہو گئی ہیں۔
عالمی رہنما ہمیشہ کہتے رہے ہیں Seize The Moment۔ لمحے کو گرفت میں لے لو۔ پاکستان کو اور ہر حکمران کو ایسے مواقع ملتے رہے ہیں۔ امریکہ ہمارا اتحادی ہے۔ ہم اس کے نان نیٹو اتحادی ہیں۔ افغانستان پر حملے کے بعد ہم نے اس کا مکمل ساتھ دیا ہے۔ ہمارے کتنے شہری، فوجی اور اعلیٰ افسر اس اتحاد کے نتیجے میں دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ ہر پاکستانی کا سوال ہوتا ہے کہ امریکہ کی دوستی سے ہمیں 75سال میں کیا فائدہ ہوا ہے؟ اس نے کسی جنگ میںہمارا ساتھ نہیں دیا۔ صدام حسین، معمر قذافی اور دوسرے مسلم رہنمائوں کے ساتھ امریکہ نے کیا سلوک کیا؟ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں نے کتنے بحران پیدا کیے ہیں۔ امریکہ نے کبھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ کیا اب فیصلے کی گھڑی نہیں آگئی ہے؟ اب امریکہ کے یک طاقتی نظام کو روس نے چیلنج کردیا ہے۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے تو یوکرین کی صورت حال مزید بگڑ چکی ہوگی یا یوکرین شکست قبول کرچکا ہوگا۔ کیونکہ روس کی فوجی طاقت کے سامنے یوکرین کی فوجی قوت بہت کمزور ہے۔ 4کروڑ 40لاکھ آبادی والے ملک کی فوجی نفری اڑھائی لاکھ بتائی جارہی ہے۔ 2600ٹینک اور 12ہزار بکتر بند گاڑیاں۔ روس نے تین طرف سے حملہ کرکے اس کے فوجی اڈوں اور تنصیبات کو بےاثر کردیا ہے۔ مغرب روس کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے مالی بحران میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، جس سے روسی تجارتی اور صنعتی کمپنیوں کی درآمدات و برآمدات متاثر ہوں گی۔ امریکہ یوکرین میں جمہوریت اور ترقی کے نام پر دلچسپی لے رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پر ہی اس نے افغانستان، عراق اور لیبیا پر لشکر کشی کی لیکن وہاں کیا ہوا۔ جمہوریت تو بعد کی بات ہے۔ ان تینوں ملکوں میں انسان سنگین صورت حال سے دوچار ہیں۔ پیوٹن نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایسے نتائج کی طرف لے جائیں گے کہ آپ نے تاریخ میں کبھی سامنا نہیں کیا ہوگا۔ امریکی صدر کہتے ہیں ’’پیوٹن نے جنگ کا راستہ چُنا ہے۔ اب اس کے نتائج بھی وہ بھگتیں گے‘‘۔
پاکستان کے عوام عمران خان سے یہ پوچھنا اور جاننا چاہیں گے کہ امریکہ روس کے اس تنازع میں پاکستان کس کا ساتھ دے گا؟