ڈائمنڈ جوبلی سال مبارک ہو
محمود شام
جنوری 2۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
پہلے تو آپ کو نیا سال مبارک ہو۔ اور سال بھی ہماری آزادی کا 75واں۔ ڈائمنڈ جوبلی سال۔ اللّٰہ کرے یہ 12 مہینے آپ اور پوری قوم کے لیے خوشیاں اور آسانیاں لے کر آئیں۔ویسے تو اس ملک میں کاغذ پر بہت کچھ ہورہا ہے۔ اسکول کاغذ پر ہیں۔ حقیقت میں نہیں ہیں۔ تنخواہیں کاغذ پر ہیں۔ کام کرنے والے نہیں ہیں۔ سڑکیں کاغذ پر ہیں۔ اصل میں نہیں ہیں۔ کارروائیاں کاغذوں میں ہیں۔ میدان میں نہیں ہیںلیکن جہاں کاغذ کی حقیقت میں ضرورت ہے وہاں کاغذ نہیں ہےاور جو کاغذ پاکستانی کارخانوں میں بن رہا ہے، اس کا معیار بہت ہی خراب ہے۔
۔۔۔
16ویں کراچی کتاب میلے کا افتتاح ہورہا ہے۔ ناشرین کی طرف سے کاغذ کے لیے گریہ زاری ہورہی ہے۔ میں پہلے بھی یہ فریاد کرچکا ہوں کہ پاکستان میں نیوز پرنٹ کا استعمال بہت ہے۔نیوز پرنٹ کا مگر کارخانہ نہیں ہے۔ کاپیوں، کتابوں کے لیے پاکستانی کمپنیاں جو کاغذ بنارہی ہیں ان کا معیار بہت کم تر ہے۔ پبلشرز بک سیلرز ایسوسی ایشن کی طرف سے یہ گلہ کیا جارہا ہے۔ وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ حکومت سندھ کی طرف سے وعدہ کررہے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت تک یہ مسئلہ پہنچائیں گے۔ سندھ اسمبلی میں وہ اس سلسلے میں خود قرارداد پیش کریں گے۔
آج اتوار ہے۔ اپنی اولادوں سے ملنے ملانے ان کی باتیں سننے کا دن۔ آج تو میری درخواست کراچی کے والدین سے ہوگی کہ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو کتاب میلے میں لائیں۔ 350 سجے سجائے اسٹال انتظار کررہے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے لیے بہت کچھ ہے۔ پہلے دن ہی میں نے بچوں بچیوں کی بڑی تعداد کو کتابوں سے محبت کرتے دیکھا۔ کسی کتاب کے اوراق کو الٹتے پلٹتے ایک بچے کی آنکھوں میں جو اشتیاق دکھائی دیتا ہے، ماتھے پر جو چمک ہوتی ہے، یوں لگتا ہے کہ کتاب کی دانش اسے منتقل ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ ہجوم انہی گوشوں میں ہے جہاں بچوں کے لیے کتابیں آراستہ ہیں۔کتابیں ایسی کشش رکھتی ہیں کہ ہم جب ان کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے تو نئے منی بجٹ کے ذریعے وزیر خزانہ شوکت ترین نے وزیر اعظم کی ہدایت پر آئی ایم ایف کے حکم پر مہنگائی کے سیلاب کا جو نیا بند توڑا، کتاب میلے میں اس کا احساس ہی نہ ہوسکا۔
افسوس تو یہ ہے کہ ہماری نئی نسل جو دنیا کے کونے کونے کی خبر رکھتی ہے، اسے یہی نہیں پتہ کہ ریکوڈک کیا ہے، کہاں ہے؟ ایک یونیورسٹی کی ٹیم انٹرویو کے لیے کیمرے لائٹیں لے کر آئی،پوسٹ گریجویٹ کلاسز کے طالب علم، میں نے کہا کہ ریکوڈک کے بارے میں کچھ جانتے ہیں، وہ بالکل ناواقف تھے۔ یہ میری، پرنٹ میڈیا، ٹیلی وژن چینلوں کی بھی غفلت ہے کہ ہم اپنے قومی خزانوں کے بارے میں اپنے قارئین کو معلومات نہیں دے رہے۔ اس کتاب میلے میں بھی ریکوڈک کے بارے میں کوئی کتاب نظر نہیں آتی۔ کوئی وائس چانسلر، کوئی کالم نویس،کوئی عالم دین اس خزانے کے لیے متحرک نہیں ہوتا۔
فطرت افراد سے اغماض بھي کر ليتي ہے
کبھي کرتي نہيں ملت کے گناہوں کو معاف
ہماری اشرافیہ، میڈیا اور مقتدرہ نے اکثریت کو فرقہ پرستی، شدت پسندی، سیاست کا مذاق اڑانے، فوج پر الزامات عائد کرنے میں اتنا الجھادیا ہے کہ وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہورہے ہیں۔ ان سے سوچنے سمجھنے اور کچھ کرنے کی صلاحیتیں چھین لی گئی ہیں۔ اب ہم ڈائمنڈ جوبلی سال میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب تو ہمت کریں۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی قوموں نے خود کفالت کی منزل حاصل کرلی ہے۔دوسری قومیں جو کررہی ہیں ، ہم بھی رہ کرسکتے ہیں۔
خود کفالت اور خودی کی بلندی کی منزل کتاب سے ہی میسر آتی ہے۔ میں تو دو تین دن سے کتابوں کے حسن میں کھویا ہوا ہوں۔ کتنی مائیں بچے گود میں اٹھائے۔ کتنی ایک ہاتھ سے بچے کی گاڑی دھکیلتی دوسرے سے کتاب کے اوراق پلٹتی نظر آرہی ہیں۔ عمر رسیدہ افراد لاٹھی ٹیکتے، خود کار وہیل چیئر کو حرکت میں لاتے اپنی پسند کی کتاب ڈھونڈتے مجھے تو ایک زندہ قوم کی بشارت دے رہے ہیں۔ مفتیانِ کرام کی کتابوں کے اعلانات مدارس کے طالب علموں کو اپنی طرف بلارہے ہیں۔ کیا حسین امتزاج ہے۔ مدارس کے طلبا کندھوں پر رومال ڈالے،شلوار قمیص میں ملبوس۔ یونیورسٹیوں کے طلبہ کندھوں پر بیگ لٹکائے، جینز پہنے۔دونوں نے کتابوں کے تھیلے اٹھائے ہوئے۔ اُردو انگریزی کے ساتھ ساتھ سندھی زبان کی کتابیں۔ سرائیکی کلام۔ پشتو کہانیاں۔ بلوچی ناول۔ کشمیری افسانے۔ ابن صفی کی عمران سیریز۔ مقبول خواتین ناول نگاروں کے ناول۔ ان پر مرکوز مائوں بہنوں کی نظریں۔ پورے برقعوں میں ۔ چادروں میں۔ عبائوں میں۔ اور کچھ کھلے سر ۔بکھرے بالوں میں۔ ہر عمر۔ ہر زبان۔ ہر لباس میں پاکستانی۔
’آپ کہاں سے آئے ہیں۔ خضدار سے‘۔ میں ٹنڈو آدم سے۔ یہ نوجوان وہاڑی سے۔ سب کی محبوب ایک ہے کتاب۔ کراچی کے گوشے گوشے سے۔ لیاری۔ کیماڑی۔ ملیر۔ ماڈل کالونی۔ گلستان جوہر۔ ناظم آباد۔ ناگن چورنگی سے کتاب کے عشاق آتے ہوئے۔ انگریزی کے پبلشر تو دنیا بھر سے کتابیںدرآمد کرتے ہیں۔ وہ سب کتابیں یہاں موجود ہیں۔ معلومات ہالوں کو مہکا رہی ہیں۔ جدید علوم سے ذہن روشن ہورہے ہیں۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اس کتاب میلے سے شروع میں آرہے ہیں۔ ان کی تقریر بہت دل نشیں ہے۔موجودہ وزیر تعلیم اور آج کے مہمان خصوصی سید سردار علی شاہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کالجوں کا لائبریری فنڈ دوبارہ جاری کرائیں گے۔ پنجاب میں سرکاری لائبریریاں بہت فعال ہیں۔ اس لیے وہاں کتاب کی زیادہ پذیرائی ہوتی ہے۔ بلوچستان میں بلوچی اکادمی ہر سال بہت معیاری کتابیں شائع کرتی ہے۔ سندھی ادبی بورڈ کے اسٹال پر بھی اہم کتابیں نظر آرہی ہیں۔ سندھ میں سرکاری کالجوں کی لائبریریاں فعال ہوجائیں ۔ محکمۂ تعلیم کے ٹھیکیدار ڈمی کتابوں کی بجائے اصلی کتابیں خریدیں تو یہاں بھی پبلشروں کی مشکلات کم ہو سکتی ہیں۔
کتاب میلے حرف و دانش اور نئی نسل کے درمیان رشتے کو مزید پختہ کرتے ہیں۔
آج آپ سے وہاں ملاقات ہونی چاہئے۔