اجتماعی زیادتی کی خبریں نمایاں کیوں؟
محمود شام
فروری ۱۷،،۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
ہلے تو اجتماعی زیادتی کی دل سوز بھیانک واردات۔
پھر اس پر میڈیا کی اجتماعی زیادتی کہ سب اخبار صفحۂ اول پر نمایاں مقام پر چھاپ رہے ہیں۔ جواں سال لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی ہولناک سرخی۔ ٹی وی چینلوں سے نیوز ریڈر بھی بہت زور شور سے اجتماعی زیادتی پر زور دیتے ہوئے خبر بار بار دہرائی جارہی ہے۔ خواتین خبریں سن رہی ہیں۔ تھر تھر کانپ رہی ہیں۔ بچے ماں باپ سے پوچھ رہے ہیں۔ یہ اجتماعی زیادتی کیا ہوتی ہے؟ میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خفیف ہورہے ہیں۔ دادی نانی دادا نانا بھی ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔
اکیسویں صدی۔ ٹیکنالوجی کی صدی۔ انفارمیشن کی صدی۔ ایک ایک سیکنڈ میں خبر پوری دُنیا میں سفر کرتی ہوئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی۔ صنعتی مرکز۔ کئی ملکوں کے برابر آبادی۔ سب سے زیادہ پولیس اسٹیشن۔ فوجی تنصیبات۔ رینجرز کی چوکیاں۔ ہیڈ کوارٹر۔ سب سے زیادہ مسجدوں والا شہر۔ بے شُمار یونیورسٹیاں۔ فیکٹریاں۔ دفاتر۔ کارپوریٹ دفاتر۔ دینی مدارس۔ مختلف تہذیبیں۔ مختلف زبانیں۔ مختلف ثقافتیں۔ پھر بھی آئے دن گھنائونے جرائم۔ روح فرسا ڈکیتیاں۔ بہیمانہ قتل۔ اور ہم لوگ ان سب کے عادی ہورہے ہیں۔ بے حس ہورہے ہیں۔ انہیں اپنا مقصد خیال کررہے ہیں۔
صدیوں سے یہ تحقیق ہوتی آرہی ہے، جدو جہد ہورہی ہے، تحریکیں چل رہی ہیں کہ عوام کو جاننے کا حق حاصل ہے اس کے لیے قانون سازی ہورہی ہے۔ امریکہ۔ برطانیہ۔ بھارت۔ روس پاکستان سب جگہ اطلاع تک رسائی کے قوانین وضع ہوچکے ہیں۔ عوام کے جاننے کے حق کے حصول میں سب سے بڑا وسیلہ میڈیا ہے۔ دو اڑھائی سو سال سے یہ کہا جارہا ہے کہ عوام کے جاننے کا حق Peoples Right to Know،میڈیا ذمہ داری سے پور اکرتا ہے۔ یہ البتہ طے نہیں ہوسکا بلکہ اس پر اختلافات ہیں کہ عوام کو کیا جاننا چاہئے اور کیا نہیں؟ جاننے کا حق اس لیے کہ وہ حقائق جان کر اگلا قدم اٹھاسکیں۔ کسی شعبے میں کسی محکمے میں اگر کہیں غلطیاں ہورہی ہیں۔ گھپلے ہیں۔ کرپشن ہے تو عوام کے دبائو میں آکر کارروائی کی جاسکے۔ اب تو روایتی میڈیا سے کہیں زیادہ یہ جاننے کا حق سوشل میڈیا پورا کررہا ہے۔ اخبار۔ رسالوں۔ ریڈیو۔ ٹی وی کے ساتھ ساتھ ہزاروں ذاتی یوٹیوب چینل دھڑا دھڑ خبریں، تبصرے، تجزیے نشر کر رہے ہیں لیکن نا انصافی اب بھی ہے۔ پیسہ اب بھی سب سے بڑی طاقت ہے۔ معاشرے میں افراتفری ہے۔ نفسا نفسی ہے۔ پھر سوشل میڈیا پر ایسے ایسے تبصرے۔ خبریں کہ 21 سو سال سے نمو پاتی تہذیب۔ فروغ حاصل کرتا تمدّن آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ خبر کو ایسے ایسے زاویے سے پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے ایسے پہلو اجاگر کیے جاتے ہیں کہ جاننے کا حق ہی تڑپنے لگتا ہے۔ یہاں میڈیا عوام کو با خبر رکھنے سے کہیں زیادہ کے عمل میں الجھ جاتا ہے۔
اجتماعی زیادتی کی خبریں مجھے تو ہلاکر رکھ دیتی ہیں۔ اس ہفتے کے دوران تو مجھے اور شدت سے اس کرب میں مبتلا ہونا پڑا کہ سرجانی میں ڈکیتی کی خبر میں اجتماعی زیادتی کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ انگریزی اُردو دونوں زبانوں کے اخباروں میں اسے صفحۂ اوّل پر جگہ دی گئی۔ ڈکیتی کی تفصیل پس منظر میں رہ گئی۔ اجتماعی زیادتی کو اچھالا گیا اور اس بے چاری بچی کی جواں عمری کو زیادہ نمایاں کیا گیا۔ یقیناً میرے ہم عصر اور ہم عمروں کا بھی یقیناً یہی حال ہوا ہوگا۔ سرجانی کی بیٹی ہو یا پاکستان میں کہیں بھی اس خوفناک جرم کا شکار ہونے والی صنفِ نازک۔ وہ کسی کی بیٹی۔ کسی کی ماں۔ کسی کی بیوی۔ کسی کی بہن۔ کسی کی کزن۔ کسی کی قریبی رشتے دار ہوتی ہے۔ اس بے چاری کی زندگی تو اسی لمحے ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ اسے آگے اندھیرے ہی اندھیرے نظر آتے ہیں۔ بہت سی تو برداشت ہی نہیں کرپاتیں۔ پنکھے سے لٹک کر جان دے دیتی ہیں۔ کچھ کو ان کے غیرت مند بھائی زندہ درگور کردیتے ہیں۔ سینکڑوں میں سے چند ایک ہی ہمت کر پاتی ہیں اور اس بہیمانہ جرم کے خلاف ڈٹ جاتی ہیں۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچاتی ہیں۔ بعض اوقات پولیس اپنی کارروائی میں جرم کی شکار خاتون کو بھی مجرم قرار دے دیتی ہیں۔
میں اس وقت اپنے ہم میڈیا ساتھیوں سے عاجزی سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ کیا عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کہاں اجتماعی زیادتی ہورہی ہے۔ کس کے ساتھ ہورہی ہے۔ اس معصوم کی عمر کتنی ہے۔ اجتماعی زیادتی کرنے والے کتنی تعداد میں تھے۔ کس عمر کے تھے۔ یہ زیادتی کس علاقے میں ہوئی۔ اس ہولناک جرم کا ارتکاب اس بد نصیب عورت کے کس کس رشتے کے سامنے ہوا؟ کیا یہ تفصیلات دینا پیشہ ورانہ طور پر ضروری ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کی کیا تصویر ابھرتی ہے؟ چاہے یہ جرم ابھی ایف آئی آر کی سطح پر ہو۔ یا عدالت میں زیر سماعت کارروائی کے مراحل میں۔ کیا پیشہ ورانہ طور پر یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ ان تفصیلات سے گریز کیا جائے۔ایک طرف تو وہ خاندان بدنامی کے انبار تلے دبتا جاتا ہے۔ دوسری طرف معاشر ے میں اس گھنائونے جرم کی تفصیلات سے مزید نفسیاتی اور اعصابی امراض پھیلتے ہیں۔
ان دنوں اخبارات اس کریہہ جرم کو جس طرح نمایاں کررہے ہیں۔ چینلوں پر جس طرح یہ خبریں زیادہ بلند آواز میں سنائی جارہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جس طرح جزئیات بیان کی جارہی ہیں۔ مجھے تو اس سے اپنا معاشرہ۔ اپنا سماج۔ اپنی قوم نارمل نہیں لگتی۔ ہم اپنی ساری اقدار۔ روایات۔ آداب کی نفی کررہے ہیں۔ اپنی لغت کو گدلا کررہے ہیں۔ ذخیرۂ الفاظ کو داغدار کررہے ہیں۔ یہ تفصیلات ظاہر ہے کہ پولیس والوں کے ذریعے تشہیر پاتی ہیں۔ کیا ان کیلئے لازمی ہے کہ وہ میڈیا کو یہ ساری باریکیاں بتائیں۔ وہ اپنے استغاثے اور مقدمے کے لیے یہ تفصیلات ضرور محفوظ کریں۔ انہیں میڈیا پر بتاکر بچوں بچیوں کے ذہن آلودہ نہ کریں۔ عورت کو بے بسی اور پامالی کے کرب میں مبتلا نہ کریں۔
میں نہیں سمجھتا کہ عوام کے جاننے کے دائرۂ کار میں اس گناہ کبیرہ کی تفصیلات ناگزیر ہیں۔ ایسی وارداتوں کی میڈیا پر نمایاں تشہیر۔ کیسے سماج کی تصویر پیش کرتا ہے؟ کیا واقعی ہم اتنی پستی میں گر چکے ہیں۔ کیا ہمارے نوجوان اس دلدل میں اِس قدر دھنس چکے ہیں؟میری اپنے ہم عصروں سے مودبانہ التجا ہے کہ میری اس فریاد پرغور کریں۔ قوم کو اس قعر مذلت سے نکالیں۔