Kishwer Nahid 27

قصہ مختصریہ کہ امن چاہئے

کشور ناہید
جنوری ۲۷۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ
 جنگ

خلا باز جنہوں نے چاند کی جانب تفصیل جاننے کے لیے مشینیں بھیجی ہیں وہ چاند پر ایک جھونپڑی دیکھ کر حیران ہوئے۔ سب کو یاد آیا ہمیں تو چاند میں چرخہ کاتتی بڑھیا نظر آتی تھی۔ کیا وہ بڑھیا جھونپڑی میں بیٹھ گئی ہے؟ جب وہ چاند پر نظر آتے جھونپڑے کے قریب پہنچے تو پتہ چلا وہ کوئی پتھر ہے جو دور سے جھونپڑی لگ رہا تھا۔ یہ سائنسی تجربے بھی عجب ہیں۔ ہمارے بچپن کے سارے اندازے اور خواب توڑتے جارہے ہیں۔ مگر ان انسانی مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے جو سیاستدانوں پر چھوڑے ہوئے ہیں۔ پہلے تو ہم اپنے ملک کے سیاست دانوں کو ہی لائقِ دشنام سمجھتے تھے مگر اب بورس جانسن کی مے نوشی کی داستانیں اور امریکی صدر کی ناعاقبت اندیشی بھی ہمیں سمجھا رہی ہے کہ سیاست کے کھیل میں کوئی صداقت نہیں۔ دور کیوں جائیں، طالبان کو بنی بنائی حکومت، مفت میں ملگئی۔ 20برس کی مشقت بھی ضائع ہوئی کہ انہیں چھ مہینے ہوئے اور اب تک حکومت بنانی نہیں آئی۔ کوئی مدد یا مشورہ دے تو سنتے نہیں۔ خواتین اگلے دن اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلیں تو ان پر پانی کے فوارے، ان سردیوں میں پھینکے اور کہہ بھی دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے دفتروں میں کام کرنے کے بارے میں تین ماہ تک فیصلہ کریں گے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان ہر سال سیاچن سے فوجیں نکالنے کا کہتے ہیں پھر دونوں مکر جاتے ہیں کہ حالات ابھی سازگار نہیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے سپہ سالار خودیہ نہیں بتاتے کہ برف کے اس جزیرے میں دونوں ملکوں کے محافظوں پر کیا گزرتی ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں ضیاءالحق نے کہا تھا کہ وہاں تو گھاس بھی نہیں اُگتی۔ دونوں ملکوں کو اقوام متحدہ بھی آکر یہ نہیں سمجھاتی کہ باقی ممالک کے درمیان بھی سرحدوں پرکہیں برف ہے اور کہیں پہاڑ، وہ اگر یوں ضد نہ کرتے تو ان ممالک کا کم از کم 40فیصدخرچہ ہماری طرح یعنی افغانستان، انڈیا، چین اور ایران کی سرحدوں پر ہر سال بڑھتا ہی رہتا۔

خود سیاست دان کہتے ہیں کہ لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں مگر شام کا ملک ہو کہ یمن، حوثی حملے اب تو دبئی تک پھیل گئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان ڈیورنڈ لائن کا بھولا ہوا قصہ یاد کرا رہے ہیں۔ نخرے کا یہ عالم ہے کہ ملک میں گندم نہیں، پاکستان نے امدادی ٹرک بھیجے تو اس پر دو لاکھ روپے فی ٹرک ٹیکس مانگ رہے ہیں۔ اس طرح چند ماہ ہوئے ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا تھا کہ ایکوفرینڈلی سیاست اور تجارت کا زاویہ اختیار کرنا ہوگا کہ ہمارے خطے میں بھوک کا مسئلہ ختم ہو۔ یہی بات انڈیا کی طرف سے بھی کہی گئی ہے کہ 35برس سے یہ فتنہ موجود ہے۔ یہاں سے فوجوں کا انخلا کیا جانا چاہئے۔ اب دونوں ملک بکریوں کی طرح سینگ اڑائے کھڑے ہیں کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ طے ہونا چاہئے۔ بھئی ایک ایک کرکے یہ تنازعات ختم کرنے کی کوشش کی جائے تو دونوں ملکوں میں تجارت کھولنا اور بڑھانا بہت ضروری ہے۔ عجب بوالعجبی ہے کہ سکھوں اور ہندوئوں کے جتھے پاکستان میں مذہبی مقامات دیکھنے آسکتے ہیں۔ مگر مسلمانوں سے انڈیا خاص کر مودی کی حکومت خود انڈیا میں مسلمانوں سے خوفزدہ ہے۔ دونوں ملکوں میں تاریخ کو گزشتہ دس برس سے مسخ کیا جارہا ہے۔ انڈیا نے چار سو سالہ مغلوں کی تاریخ کو یک قلم نصاب سے نکال دیا ہے۔ شہروں کے نام بدل رہے ہیں۔ مذہبی جنونیت اُدھر بھی ہے اور اِدھر بھی۔ یہ دونوں ملک، تقسیم کے وقت ہر طرح کی اجناس میں خود کفیل تھے۔ 1965ء تک، کوئی باقاعدہ ویزا نہیں تھا۔ بعدازاں ہم، ہندوستان کے مشاعروں اور محققین کو بلاتے رہے اور یہی حالت ہندوستان میں تھی۔ مجھے ممبئی کی ایک محفل مشاعرہ یاد ہے کہ بہت سے مولویوں نے ٹیلی فون کرکے کہا … آجائو آجائو، احمد فراز ’’گجل‘‘ پڑھنے لگا ہے پٹنہ لائبریری سے ڈاکٹریٹ کا مواد حاصل کرنے، ہمارے طالب علم جاتے تھے۔ اب سب طرف تالے پڑے ہوئے ہیں اور انڈیا کی نوجوان نسل کو نفرتیں ایسی سکھائی گئی ہیں کہ مسلمان کو دیکھ کر یہ نوجوان بالوں سے گھسیٹتے شہر بھر میں پھراتے ہیں۔ کوئی ایک شخص چھڑانے کو نہیں آتا بلکہ مارنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے۔

یہ وحشت ختم کرنے کی کوئی کوشش، دونوں ملکوں میں ہے، ایک بڑا وسیلہ میڈیا کا ہوسکتا تھا وہ بھی بند ہے۔ فلموں کا ہوسکتا تھا۔ وہ تو ایسا بند ہے کہ انڈیا کے سب سے سینئر اداکاروں کو مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ منافقتیں اور نفرتیں آکاس بیل کی طرح پھیلتی چلی جارہی ہیں۔ انڈیا کو چھوڑیں۔ افغانستان میں طالبان سے اپنی حکومت چل ہی نہیں رہی،بلکہ باقاعدہ کابینہ بھی نہیں ہے۔ مغربی ممالک نے مدد کی پیشکش کی تو پہلے انکار کیا کہ ہالینڈ نے کہا تھا کہ ہم سارے بچوں اور ساری استانیوں کا بجٹ خود دیں گے۔ مگر ان کی بھی ایک نہ سنی۔ اب امریکہ سے لے کر دیگر امدادی ادارے مدد کا اعلان کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ رقم ان کے ہاتھ میں دیدی جائے۔ وہ چاہے جہاں خرچ کریں، ہم نےبھی تو سی پیک کے فنڈزغلط استعمال کئے۔ وہ تو ہاتھ باندھ کر، معافی تلافی کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک والے ساری کانوں سے سونا نکال کر ہوا ہوئے۔ اب بتایا جارہا ہے کہ وہاں نہ معدنیات ہیں اور نہ گیس۔

ہماری تو معیشت کی پردہ داری آئی۔ ایم۔ ایف نے ختم کر دی ہے۔ اوپر سے کراچی میں لسانی گروپ پھر آمادہ پیکار ہے۔ یہ بھی تو لندن والے کے ساتھ تھے اور ہر جگہ قبضے کئے ہوئےتھے۔ کبھی تو گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں۔ بھتہ اور بوری میں بند لاشیں کہاں بھولی ہیں۔ ہم انہیں سمجھتے تھے کہ سنور گئے ہیں مگر پوتڑوں سے بگڑے، کب سنورتے ہیں۔ خدا کے لیے ملک میں یگانگت کی تحریک چلائیں۔ امن کیلئے محسن داوڑ بھی چیخ رہا ہے

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.