ہم سے رنجِ بےتابی کس طرح اٹھایا جائے
کشور ناہید
جنوری 5۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
ومِ قائداعظم پر پیچھے مڑ کر میں نے تاریخ کے صفحے اُلٹنے شروع کئے تو سب سے پرانے ایک روپے کے نوٹ پر نظر پڑی۔ ایک اشتہارتھا جو قائداعظم کی تصویر والے ایک روپے کے نوٹ کے ساتھ کسی اخبار میں چھپا تھا۔ اشتہار میں مذہبی زعما اور تاجروں نے دستخط کرکے اعلان کیا تھا کہ نوٹ پر قائداعظم کی تصویر شائع کرنا خلافِ شرع ہے۔ یہیں یاد آیا کہ مولانا غلام مرشد نے شاہی مسجد میں مائیکرو فون پر اذان دی تو رولا پڑگیا کہ یہ آلات استعمال کرنا خلافِ مذہب ہے۔ یہ بھی یاد آیا کہ اس طرح کے ایک مذہبی طوفان کے باعث خان عبدالغفار خان صاحب کو اپنا وطن چھوڑ کر افغانستان جانا پڑا۔ وہ وطن آتو گئے تھے مگر ان کی وصیت کے مطابق انہیں افغانستان ہی میں دفن کیا گیا۔ پاکستان میں جنونیت کو مولانا حسرت موہانی نے پسند نہیں کیا۔ یہ وہ شخصیت تھی کہ جب مولانا تقریر کرنے لگتے اوران کو منع کرنے کوکوئی ہاتھ اُٹھتا تو قائداعظم خود منع کرتے کہ مولانا کی گفتگو میں کوئی ٹوکے نہیں۔ نواب محمود آباد نے پاکستان آنا پسند کیا تھا مگر سیاست کی شروعات میں سازشوں کو دیکھ کر، باہر چلے جانے کو مناسب سمجھا۔
یہ داستان تو بہت طویل ہے۔ کس طرح خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے زبردستی اتارا گیا اور جس طرح مشرقی پاکستان کے دیگر زعما کو غداری کے طعنے دیکر پاکستان سے ناخوش کیاگیا۔ یہ المیہ پنڈی سازش کیس کے نام پر بنایا گیا۔ ان اصحاب کیلئے موت کی سزا بھی تجویز کی گئی۔ پھر سہروردی صاحب جیسے وکلا کی مزاحمت سے، یہ مقدمہ ختم اور فیض صاحب سمیت تمام زعما کو رہا کر دیا گیا۔ مگر رجعت پسند آج بھی اس واقعہ کو ‘‘سازش‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
فرقے،موسمی فصلوں کی طرح پھیلتے گئے۔ اُسی کے ساتھ دہشت گردی اور جنونیت ایسے طاعون کی طرح پھیلی کہ اب جس کے ہاتھ جو شخص آیا، اس کو مذہب کے خلاف کہہ کر ماردیا۔ سرکار ایسے المیوں پر نیمے دروں نیمے بروں چلتی رہی۔ ان کے حوصلے اتنے بڑھےکہ سیالکوٹ میں دو نوجوانوں کو بھرے بازار میں چیتھڑوں اور بوٹیوں میں تقسیم کردیا۔ مشال خان جیسے طالبِ علموں کو فلسفی زعما کے پوسٹر کمرے میں لگانے پر مارا، گھسیٹا اور آگ دکھائی گئی۔ دشنامِ مذہب کے الزام لگا کر قصور میں میاں بیوی کو بھٹی میں دھکیل دیا گیا۔یہ جنونیت فرقوں سے جماعتوں تک پھیلتی گئی۔ سلمان تاثیر کو مقابل آکر گولی مارنے والے کا، لوگوں نے مقبرہ بناکر اس کا باقاعدہ عرس منانا شروع کر دیا اور تحریک کے نام سے ایسی جنونیت دکھائی کہ پولیس کے نوجوانوں کو دھڑا دھڑ گولیاں مارتے رہے اور حکومت کو جھک کر صلح نامہ کرنا پڑا جس کی تفصیل اب تک سامنے نہیں آئی۔
یہ جنونیت کوئی تازہ شاخسانہ نہیں۔ ہم نےڈاکٹر فضل الرحمان اور ڈاکٹر سعد کی قرآن کی تفسیر اور خطبات کو نصاب میں شامل نہیں کیا۔ ہمارے صدر، باربار کہتے ہیں کہ پاکستان میں شہریوں کو برابر کےحقوق حاصل ہیںتو مجھے ان کی معصومیت پر رشک آتا ہے جو کچھ نور مقدم کے ساتھ ہوا، جس کے تمام ثبوت عدلیہ کے پاس ہیں، اس جلاد قاتل کو ابھی تک سزا نہیں دی گئی۔ اس قتل پر مذہبی زعما ایک حرف نہیں بولے۔ مگر داد دیں ہمارے وزیراعظم کوسیالکوٹ کے واقعے پر انہوں نے اپنا حکومتی وفدسری لنکا کے سفیر کے پاس معذرت، تعزیت اور نجانے کیا کچھ کہنے کیلئے بھیجا کہ جس وفد میں مولانا قمر جمیل اور مولانا اشرفی شامل ہوں، دونوں گفتار کے غازی ہیں، ہمارے ملک کی بےمثل نمائندگی کی ہوگی۔ ویسےمفتی منیب الرحمان صاحب کو بھی کیمرہ بہت پسند ہے، وہ بھی اہم عہدہ پر فائز ہیں تو جو عروج ان صاحب کو اس زمانے میں ملا وہ تو ضیا ء الحق کے زمانے میں بھی نہیں ملا تھا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ صرف ایک اعتراض ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو سائنسی علوم کی جانب راغب کریں اور انہیں سمجھائیں کہ کروڑوں صدیوں سے یہ کائنات قائم ہے اور آسمان میں نظر آنے والے ستارے اور زمین کے گرد گردش کرتے دیگر سیارگاں کیسے دنیا کی جغرافیائی اور موسمی تبدیلیوں کو خدا کے احکام اور ہدایت کے مطابق، جن تبدیلیوں کو دنیا بھر کے سائنسدان تحقیق کے بعد، بیان کر رہےہیں۔ ڈر لگتا ہے کہ ہمارے شدت پسند، ان کو بھی گولیوں سے اڑانے کا سوچیں، جیسا کہ یورپ میں کوئی ایک جنونی کبھی سڑک کبھی کلب پر حملہ کرتا ہے اور ہمیں معذرت کرنی پڑتی ہے اس طرح کی شدت پسندی، سفید فام افراد میں بھی زوروں پر ہے، پہلے صرف کالوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے۔ اب اسلام کا نام نہیں سن سکتے ۔ یہی حال یہودیوں کا بھی ہے۔ حضرت عیسیٰ پر بہت فلمیں بنی ہیں۔ دنیا نے اعتراض نہیں کیا بلکہ اس تلاش کو وسیع کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے، تو کیسے۔ اس تلاش میں مذہبی عصبیت شامل نہیں ہے۔ مسلمانوں میں جتنے بھی فلسفیوں نے تحقیق کی، ان کو صدیوں سے یونہی تہہ تیغ کیا گیا۔ اگر یوں بس نہیں چلا تو وہ پاکستان چھوڑ کر جہاں سینگ سمائے چلے گئے ۔ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے۔ علامہ اقبال نے کہا، ان کی بھی نظم شکوہ پر بہت اعتراض کئے گئے انہیں پھر جواب شکوہ لکھنا پڑا۔