روپے کی ناقدری
اداریہ
دسمبر 28۔۔۔2021
روزنامہ جن
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم کرنے کے حوالے سے حکومتی سنجیدگی اور کوششیں اپنی جگہ، مگر معاشی اشاریے بتا رہے ہیں کہ ڈالر کی اونچی اڑان کسی کے روکے، رک نہیں رہی اور اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 181.3روپےکی بلندترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو کرنسی کے غیرقانونی کاروبار کی چھان بین اور روک تھام کا ٹاسک سونپا تھا۔ اس کی جانب سے تمام تر اقدامات اٹھائے جانے کے باوجود روپے کی شرح مبادلہ بہتر ہونے کی بجائے مسلسل زوال پذیر ہے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کے ایک انٹرویو کے مطابق ایجنسی نے کرنسی کے غیرقانونی کاروبار میں ملوث افراد کیخلاف کریک ڈائون کیا تاکہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور بیرون ملک اسمگلنگ کا پتہ چلا کر اسے روکا جا سکے اس کارروائی میں صرف دسمبر 2021میں ملک بھر میں 158افراد کو گرفتار کیا گیا، اور 3سو ملین روپے کی غیرقانونی مقامی اور غیرملکی کرنسی پکڑی گئی۔ مجموعی طور پر 25اگست سے اب تک دس ہزار سے زائد غیر قانونی لین دین کی چھان بین کی گئی۔ اس کے نتیجے میں 1.3بلین روپے کی کرنسی برآمد ہوئی۔ 265افراد گرفتار کئے گئے اور درجنوں دکانیں سیل کی گئیں، خیال رہے کہ ایف آئی اے کا کام کرنسی کے غیرقانونی کاروبار کی چھان بین اور ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ کرنسی کی قدر بڑھنے یا گھٹنے کے معاملے سے نمٹنے کیلئے دوسری قومی و بین الاقوامی ایجنسیاں موجود ہیں جو براہِ راست حکومت کی نگرانی میں کام کرتی ہیں۔ ایف آئی اے نے اپنی تحقیقات اور کریک ڈائون کے نتیجے میں بعض مشکوک کاروباری لین دین کی رپورٹس مزید کارروائی کیلئے ایف بی آر، نیب اور انٹی نارکوٹکس کو فورس کو بھیج دی ہیں۔ ایف آئی اے نے اپنی کارروائی افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد شروع کی جب پاکستان میں ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں یک لخت بڑھنا شروع ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کو پر لگ گئے جو پہلے ہی غریب طبقے کے لئے سوہانِ روح بن چکی تھی۔ روپے کی قیمت گھٹنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ملک پر غیرملکی قرضوں کا بوجھ بیٹھے بٹھائےاربوں روپے بڑھ گیا اور سست رو ملکی معیشت کو بھی ایک اور دھچکا لگا۔ جوں جوں ڈالر مہنگا ہو رہا ہے ملک میں مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے اور دوسرے مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کا یہ بیان قابلِ غور ہے، ان کا کہنا ہے کہ حکومت روپے کی قدر مستحکم کرنے کیلئے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت توقع سے زیادہ بڑھ رہی ہے۔ اسے 160سے 165روپے کے درمیان ہونا چاہئے تھا۔ سٹیٹ بینک نے بھی مجموعی طور پر ڈالر کی بڑھتی اڑان روکنے کیلئے اقدامات کئے ہیں لیکن حکومت اور اسٹیٹ بینک کی کوششوں کا عکس ڈالر کی شرح مبادلہ میں نظر نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے میں یا تو حکومت اور سٹیٹ بینک ایک پیج پر نہیں یا انہیں روپے کی گراوٹ روکنے میں زیادہ دلچسپی نہیں کیونکہ روپے کی ڈی ویلیو ایشن آئی ایم ایف کی شرائط کا حصہ ہے اور ملکی معیشت اس وقت عملی طو رپر آئی ایم ایف کی خواہشات کی تابع ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلئے جو منی بجٹ پیش کر رہی ہے وہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ منی بجٹ یا فنانس ترمیمی بل کے ذریعے 350ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ واپس لینے سے آئی ایم ایف کی شرط تو پوری ہو جائے گی لیکن اس کے نتیجے میں متاثرہ لوگوں پر جو بیتے گی اس کا حساب حکومت ہی کو دینا ہوگا۔ ارباب اختیار کو چاہئے کہ ترکی نے جس طرح لیرا کی قدر بحال کی اسی طرح پاکستان روپے کی ’عزت‘ بحال کرے تاکہ ملکی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو سکے۔