کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
عرفان اتہر قاضی
جنوری ۲۶۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ جنگ
مرشد نے بائیس سال ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر جو چلہ کاٹا تھا اسی کے ثمرات ہیں کہ آج وہ ہر طرف چھائے نظر آتے اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی ناک سے لکیریں نکلوا رہے ہیں اور عوام کان پکڑے بانگیں دے رہے ہیں۔ مرشد کی بائیس سالہ تپسیا کو دیکھتے ہیں تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کا بابا بڑا ڈاھڈا ہے۔ اپوزیشن نے منی بجٹ سے پہلے چائے کی پیالی میں جو طوفان اٹھایا تھا وہ تھم چکا ہے۔ اب تو یہی مشورہ ہے کہ اپوزیشن مرشد کے ہاتھ پر بیعت کرلے یا مرشد کے بابے کے پاؤں پکڑ لے۔ عوام کا اللہ وارث۔ یہ تو بنے ہی ہانکے جانے کے لیے ہیں جو جس طرح چاہے دھکے مارے یا ڈنڈے برسائے ہر ستم سہہ لیتے ہیں۔ اب انہیں اس بات سے بھی کوئی غرض نہیں کہ یہ کمپنی چلتی ہے یا نہیں لیکن ایک بات طے شدہ ہے کہ یہ کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ڈیجیٹل ورژن ضرور ہے۔ اس کمپنی کے مالکان پہلے گورے تھے اب ان گوروں کے مردے دفنانے والے گورکنوں نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ چٹی چمڑی والے تو واپس چلے گئے لیکن اپنے پیچھے نیلی پیلی کالی چٹی چمڑی کے ملاپ سے پیدا ہونے والی ایک ایسی بے رنگی نسل ہمارے لیے چھوڑ گئے جس نے ہماری اصلیت ہی برباد کرکے رکھ دی۔ اب ایک ایسی نسل اس ملک پر راج کررہی ہے جس کا واحد مقصد اس کے وسائل کو لوٹ کر سارا بوجھ غریبوں پر ڈالنا ہے۔ واضح طور پر محسوس ہونے لگا ہے کہ ہم بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جوہم سے ٹیکسوں کے نام پر اسلحے کے زورپر بھتہ وصول کرتے ہیں لیکن ہم مغویوں کو پھر بھی رہائی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر کوئی خوش قسمتی سے ان اغواکاروں کے چنگل سے آزاد ہو بھی جائے تو راستے میں ایسے ایسے بنارسی ٹھگ ملتے ہیں جو سونا ڈبل کرنے کا جھانسہ دے کر ہماری باقی جمع پونجی بھی لوٹ کر خود ہی شور مچا دیتے ہیں کہ ’’ہائے وے لوکو میں لٹی گئی‘‘۔ کس کس کا روناروئیں، حکومت کا سیاپا کریں یا اپوزیشن کا، سب رلے ملے ہیں۔ شور ایسے مچاتے ہیں جیسے عوام کے سارے دکھ درد انہی کے دل میں ہوں۔ ڈرامے ایسے رچاتے ہیں کہ ان سے بڑاہماراکوئی ہمدرد نہیں۔ ہنگامہ برپا کرتے ہیں تومحسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے مرشدسرکار کا کام تمام ہوگیا۔ کھودتے پہاڑ ہیں تو نیچے سے یہ چوہے نکلتے ہیں۔ منی بجٹ کی منظوری سے قبل حکومتی و اپوزیشن کرداروں نے جو ہنگامہ برپا کررکھا تھا واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ دونوں فریقین پتلی تماشے کے وہ کردار ہیں جن کی ڈوریاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور یہ سب انگلیوں کے اشارے پر ناچنے والے۔یہ تو بھلا ہو ڈرامے کے ولن بابا جی پرویز خٹک کا جنہیں مرشد کے سجائے دربار میں سگریٹ کی طلب نے اس حد تک بے چین کردیا کہ انہیں سگریٹ سلگانے کے لیے خیبر پختونخوا کا واسطہ دے کر مرشد سے ہی ”گیس لائٹر“ مانگنا پڑ گیا حالانکہ بابا جی جانتے تھے کہ سگریٹ نوشی مضر صحت ہے اور مرشد اس سے پرہیز کرتے ہیں لیکن باامر مجبوری انہیں مرشد کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑ گیا اور سگریٹ کی طلب نے بات توتکار تک پہنچا دی۔ یہ کرامات ہی تو ہیں کہ خٹک بابا نے بھرے اجلاس میں مرشد کو آنکھیں دکھائیں۔ منی بجٹ کی منظوری کے دوران ووٹ نہ دینے کی دھمکی دی، مرشد دھمکی پر شدید ناراض ہوئے، غصے میں اجلاس سے اٹھ کر جانے لگے، صاف طور پر کہہ دیا کہ میں کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گا۔ ووٹ نہیں دینا تو نہ دیں میری جگہ کسی اور کو گدی پر بٹھا دیں، پھر یار دوستوں نے انہیں سمجھایا، منایا، منتیں کیں، خٹک بابا ”سوٹا“ لگانے چلے گئے۔ ناراضی اس حد تک بڑھی کہ انہیں قومی سلامتی سے متعلقہ اہم اجلاسوں میں نہیں بلایا گیا۔ افواہوں کا بازار گرم ہوا کہ مرشد اب گئے۔ کہا جانے لگا کہ خٹک بابا نے بھی اپنے بھانجوں کی طرح کوئی نیا ٹھکانہ ڈھونڈ لیا ہے(ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی) اور تحریک انصاف خیبرپختوانخوا کا ایک بڑا دھڑا ان کا ہم نوا ہے۔ پھر کرامات والے درمیان میں آئے بیچ بچاؤ کرایا، مرشد کوسمجھایا کہ بات اس طرح نہیں چلے گی، ایک نہیں پھر سب جائیں گے اور نئے گدی نشین آئیں گے پھر کہیں جا کر عقل ٹھکانے آئی۔ گورنر ہاؤس خیبرپختونخوا میں بابا خٹک کے اعزاز میں دوبارہ بڑا دربار سجایا گیا۔ بابا خٹک بڑے طمطراق سے صف اول میں بیٹھے، مرشد نے ان کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کئے، ان کی وزارت اعلیٰ کے دور کو یاد کیا، یہ سب کرشماتی کمالات ہی تو ہیں جو خان کسی سے ڈرتا نہیں تھا وہ ایک بابے سے ڈر گیا۔ یہاں شیخو بابا اور فواد جہلمی کی سچی باتوں کا اعتراف تو کرنا بنتا ہے کہ مرشد کے سر پر جس کا ہاتھ ہے وہ سلامت رہیں جو ہاتھ اٹھنے کا دعویٰ کرتے تھے وہ جائیں بھاڑ میں۔ اب یہ ہاتھ مرشد کے سر سے تو اٹھنے والا نہیں، غلط دعوے کرنے والوں کی گردنوں پر ہی آئے گا۔ ڈیل ہوگی نہ ڈھیل ملے گی، چاروں شریف مائنس ہو جائیں گے۔ مرشد کے یہ سیاسی نجومی (ن) لیگ کی جن چار شخصیات کی خفیہ ملاقاتوںکا ذکر کرتے ہیں ان دعوؤں سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کون، کس سے، کن امور پر کیوںملاقاتیں کررہا ہے خصوصاً جب چند دن قبل واضح کر دیا گیا تھا کہ نواز شریف سے کوئی ڈیل نہیں ہو رہی جو یہ دعویٰ کررہے ہیں ان سے ہی پوچھیں۔ اداروں کو ان معاملات سے دور رکھیں تو پھر مرشد کے سیاسی نجومیوں کو یہ کیا سوجھی کہ ایک بار پھر رات کی تاریکی میں ہونے والی خفیہ ملاقاتوں کا ذکر چھیڑ دیا۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں کہ ایک طرف اپوزیشن اور میڈیا کو واضح پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ خاموش رہیں۔ اداروں کو آلودہ سیاست میں مت گھسیٹیں تو دوسری طرف مرشد کے سیاسی نجومی کھلے عام اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے اداروں کی پناہ گاہ میں چھپتے پھر رہے ہیں۔