عالم اسلام اور صیہونیت(آخری قسط)
حسن نثار
جنوری 12۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
”مالی امداد کے عوض یہودیوں کی انگلستان میں واپسی کی وکالت کی جائے گی لیکن جب تک کنگ چارلس زندہ ہے یہ کام ناممکن ہے۔ چارلس کو مقدمہ چلائے بغیر سزائے موت بھی نہیں دی جاسکتی اور اس کے لئے کافی مواد بھی موجود نہیں۔ اس لئے میرا مشورہ ہے کہ کنگ چارلس کو قتل کردیا جائے مگر قاتل کے حصول کے لئے میں کچھ نہیں کرسکتا البتہ اسے بھاگنے میں مدد دے سکتا ہوں“
یہودی ڈائریکٹر پریٹ نے اس کے جواب میں 12 جولائی1647ء کو لکھا” جونہی چارلس کو ہٹادیا گیا اور یہودیوں کو واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔ مالی امداد فراہم کردی گئی ،قتل کرنا خطرناک ہے ،بہتر ہوگا کہ چارلس کو فرار کا موقع دیا جائے اور پھر اسے گرفتار کرلیا جائے، یوں اس پر مقدمہ چلانا اور سزائے موت دینا ممکن ہوگا“۔
12نومبر1648ء چارلس کو بھاگنے کا موقع دے کر پکڑ لیا گیا، اسی دوران کرامویل نے پارلیمنٹ کے بہت سے ممبرز کو نکال دیا۔ اس کے باوجود جب 5دسمبر1648ء کو پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو اکثریت نے فیصلہ کیا کہ بادشاہ جو رعایتیں دینے کو تیار ہے وہ کافی ہیں لیکن کرامویل لڑ گیا۔ اس نے کرنل پرائیڈ کو حکم دیا کہ ان ارکان کو نکال دیا جائے جنہوں نے بادشاہ کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ میں صرف50ارکان رہ گئے ۔ انہوں نے 9 جنوری1649ء کو ایک ایسی عدالت کا اعلان کیا جو بادشاہ پر مقدمہ چلائے گی۔ بادشاہ کی فرد جرم بنانے کے لئے کوئی انگریز وکیل نہ ملا تو ایک گمنام یہودی کو اس پر مقرر کیا گیا۔ بادشاہ کے خلاف سماعت ہوئی اور اس طرح انگلینڈ کے شہریوں کی طرف سے ہرگز نہیں بلکہ بین الاقوامی یہودی مہاجنوں، سود خوروں اور قرض خواہوں کی وجہ سے بادشاہ کو مجرم قرار دے کر اسے سزائے موت دیدی گئی اور پھر 30جنوری1650ء کو لوگوں کے سامنے اس کا سر قلم کردیا گیا۔ یہ تھا بھیانک انتقام اس جبری خروج کا جو ایڈورڈ اول نے یہودیوں پر مسلط کیا تھا۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ مقصد صرف انتقام ہی نہیں بلکہ انگلینڈ کے مالیاتی نظام کے ذریعہ حکومت پر قبضہ بھی ایک بڑا مقصد تھا، پھر انگلینڈ کو دوسرے ملکوں کے ساتھ بہت سی جنگوں میں ملوث کرکے اکثر بادشاہوں کو کنگال کرنے کے بعد انہیں بڑے بڑے قرض دئیے گئے اور اس طرح تقریباً تمام یورپی اقوام کو ”مقروض“ کردیا گیا۔
پھر سازشوں، جوڑ توڑ، ذہین چالوں کی ایک لمبی داستان ہے اور یہ معصوم سا کالم ظاہر ہے اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہم سیدھے شارٹ کٹ مار کر ولیم کی تخت نشینی (1699)پر آتے ہیں جس کے بعد اس نے حکم دیا کہ یہودی بنکوں سے بارہ لاکھ پچاس ہزار پونڈ قرضہ لیں۔ تاریخ آج تک نہیں جانتی کہ یہ قرضہ دینے والے پوشیدہ ہاتھ کن کے تھے۔ ڈیل کو خفیہ رکھنے کے لئے میٹنگ چرچ میں ہوئی، صہیونیت نے مندرجہ ذیل شرائط پر قرض دینا قبول کیا۔
1۔ان کے نام ظاہر نہ کئے جائیں اور انہیں ”بنک آف انگلینڈ“ کے قیام کا چارٹر دیا جائے۔
2۔انہیں قانونی حق دیا جائے کہ وہ سونے (Gold) کو سکے کی بنیاد(گولڈ سٹینڈرڈ) بنا سکیں۔
3۔انہیں ایک پونڈ سونے کے عوض دس پونڈ تک قرضہ دینے کی اجازت دی جائے۔
4۔پورے قومی قرضہ کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں یہ حق دیا جائے کہ وہ یہ قرضہ اور اس کا سود لوگوں سے براہ راست ٹیکس کے ذریعہ وصول کرسکیں۔کیا ہمارے عظیم قائدین سوچ بھی سکتے ہیں کہ گولڈ سٹینڈرڈ کے نتائج کیا نکلے؟ اگر انگلینڈ کا قرض تب 4سالوں میں ایک ملین پونڈز سے بڑھ کر16ملین پونڈز ہوگیا تھا اور 1945ء میں یہ قرض 22 ارب 50 کروڑ 35 لاکھ ہوچکا تھا تو اس آکٹوپس کے سامنے موجودہ دنیا کی حقیقت اور حیثیت کیا ہوگی؟ پاکستان تو کسی شمار قطار اورکھاتے میں ہی نہیں کہ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ اور پھر امریکہ کی مشکیں کیسے کسی گئیں یہ اک اور طلسم ہوشربا ہے جو کسی ”حضرت صاحب“ کی سمجھ میں بھی نہ آسکے گی کہ اس کے لئے”درس نظامی“ سے زیادہ علم درکار ہے۔ سچ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام اپنے اصل حریف سے واقف ہی نہیں کیونکہ یہ”اصل آقاؤں“ کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کے غلاموں کے سایوں اور پرچھائیوں کا غلام ہے۔ ان کے حکمرانوں اور فکری و مذہبی لیڈروں کی بھی عموماً دو ہی صفات ہیں ،اول جہالت دوم عیاشی۔ یہ تو اتنی استعداد بھی نہیں رکھتے کہ وضاحت سے پیش کی گئی کسی بات کو سمجھ بھی سکیں اس لئے ”امریکہ کی غلامی سے نجات“ …”ڈرون حملے بند کرو“ ”امریکہ عراق کے بعد افغانستان میں بھی شکست کھا چکا“ وغیرہ وغیرہ وغیرہ جیسی لغویات و فروعات کے علاوہ ان کے پلے ہی کچھ نہیں کہ فکری دیوالیہ پن اس دنیا سے باخبر ہی نہیں جس میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے…شاید یہ سب پچھلے جنم میں کنوئیں کے مینڈک تھے۔
آخر پر چندRevealing quotesجن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صیہونیت ہے کیا؟ عہد حاضر میں اس کا کردار کتنا فیصلہ کن ہے؟ اور اس دنیا کی بنت کس قسم کی ہے؟ اور ان کا مائنڈ سیٹ کیا ہے؟ غور سے پڑھو اور ہوش کرو۔
“We Jews regard our race as superior to all humanity ,and look forward not to its ultimate union with other races ,but to its triumph over them”
گولڈ ون سمتھ یہودی پروفیسر آف ماڈرن ہسٹری آکسفورڈ یونیورسٹی اکتوبر 81دوسرا پیغام بلکہ تھیٹر ملا حظہ فرمائیے۔
“Why are gentiles needed? they will work ,they will plow,The will reap and we will sit like an effendi (Turkish Bossman)and eat.That is why gentiles were created”
Rabbi ova dia, Mentor of TRFP
“The modern Jew is the product of the Talmud”
)Michael Rodkinson(
“The whole fortune of nations will pass into the hand of the Jewish people:
(Isdor Loeb)
پڑھتا جا… شرماتا جا اور کچھ نہ سیکھنے سمجھنے کی قسم بھی کھا کہ جہالت جیسی راحت کوئی نہیں! کیوں مولانا کیا خیال ہے؟