نیا سال: نئے مسائل،نئے عزائم
حیدر امین
جنوری 7۔۔۔2022
روزنام،ہ 92نیوز
2022ء کا سال آن پہنچا۔ اس کی آمد سے پہلے حکومت نے منی بجٹ کا بم گرادیا ، لوگ ہکا بکا رہ گئے۔ پہلے کیا مشکلات اور مسائل کم تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ غریب سے اس کا نوالہ چھیننے کی پوری کوشش ہورہی ہے۔ عام پاکستانی کے یہ ساڑھے تین سال بہت تکلیف سے گزرے ہیں۔ ڈالر کی چھلانگیں کم ہونے کا نام نہیں آ رہیں۔ اشیاء خورو نوش اور پھلوں’ سبزیوں’ آٹا اور یوٹیلٹی بلز نے عام پاکستانی کا ناک میں دم کر رکھاہے۔ سمجھ نہیں آتا گیلپ والوں نے یہ سروے کہاں پر کیا جس میں 65 فیصد لوگوں کو مطمئن’ حکومت کی کارکردگی سے خوش اور حالات میں بہتری کی نوید سنائی جارہی ہے۔ اس کے برخلاف میں جس سے بھی ملتے ہیںمنہ لٹکائے ہوئے ہے اور اندیشوں میں گھرا ہوا ہے۔ گیلپ سروے والے ان بستیوں کے نام ہی بتادیں جہاں یہ 65 فیصد مطمئن لوگ بستے ہیں۔ کوئی دستاویزی فلم بننی چاہئے۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے ان علاقوں میں وائرل ہونی چاہئے جہاں ہم جیسے مایوس لوگ بستے ہیں۔اس کے علاوہ ایک کام یہ بھی کرسکتے ہیں کہ ان 65 فیصد لوگوں سے پوچھا جائے کہ ان کے نزدیک خوشی کا مفہوم کیا ہے۔ کیا یہ لوگ راہ سلوک کے مسافر ہیں جو روٹی’ کپڑا’ چھت کے بغیر بھی کوئی چلہ کررہے ہیں یا وظیفہ۔ اگر یہ معاملہ کسی فارمولے سے وابستہ ہے تو اسے بیچ کر زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ گیلپ کے سروے سے تو یوں پتہ چلتا ہے کہ خوش رہنے کیلئے ماورائے اسباب صورتیں بھی پائی جاتی ہیں۔ میں بھی ایسی بستیوں کی تلاش میں ہوں جہاں ایسے خوش نصیبوں کا بسیرا ہے جو سکھ اور چین کے گیت گارہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 23 کروڑ لوگوں کے ملک میں 14 کروڑ لوگ چین کی بانسری بجارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں یہ لوگ سکرنڈ’ پنڈ دادن خان اور کاکا خیل کی کسی مضافاتی بستی میں نہیں رہتے ہوں گے۔ اگر یہ بستیاں ہمیں نہیں معلوم تو گیلپ سروے والے خود ہی بتادیں۔ اس وقت ہم پر کم و بیش 127 ارب ڈالر قرضے ہیں۔۔ 2018ء میں ہم پر 30000 تیس ہزار ارب روپے کا قرضہ تھا۔ اب یہ قرضہ 50000 پچاس ہزار ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تین سال میں 20000 بیس ہزار ارب روپے کا قرضہ بڑھا ہے۔ گردشی قرضے 1200 ارب روپے تھے۔ آج یہ 12500 ارب تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ تو یقیناً بڑے الارمنگ اعداد و شمار ہیں۔ اب ہم تقریباً 10 ایسے ادارے چلارہے ہیں جن کا پیٹ بھرنے کیلئے ہمیں اربوں کا نقصان پورا کرنا پڑتا ہے۔ ریلوے’ ایئر لائن’ اسٹیل ملز وغیرہ ایسے ادارے ہیں جو ایک طرح کا بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ یہ کتنی فکر مندی کی بات ہے کہ ہماری 23 کروڑ آبادی میں سے 15 کروڑ 30 سال کے کم عمر نوجوان اور بچے ہیں اور بیروزگاری کی جو شرح پہلے 4 فیصد سے کم تھی آج 5 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ تعلیم میں خواندگی کی شرح میں 2019ء کے مقابلے میں آج 19 فیصد کم ہوگئی ہے۔ ادارہ شماریات بتاتا ہے کہ آٹے کا تھیلا 200 روپے مہنگا ہوا۔ فی کلو گھی اور تیل میں 140 روپے سے 143 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ دودھ اور دہی میں 25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول 30 روپے سے زیادہ بڑھا ہے۔ بجلی میں ایک سال میں ساڑھے تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مسور کی دال میں 53 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے۔ معاشیات کے ماہرین بتارہے ہیں جس طرح ہمارا معاشی نظام چل رہا ہے اس سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ شبر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کا توازن بالکل بگڑ چکا ہے۔ روپے کی قدر کم ہوتی جارہی ہے۔ ابھی جو بل آیا ہے اس میں ٹیکسز کی بھرمار سے عوام براہ راست متاثر ہوں گے۔ عوام کیلئے خیر کی کوئی خبر نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس اب سکڑتی جارہی ہے۔ یہ غربت کی سطح پر پہنچ گئی اور غریب کو روٹی کے لالے پڑگئے ہیں۔ مجھے وہ 65 فیصد لوگ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں جو خوشحالی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ خدارا لوگوں کو غلط راستے پر نہ ڈالیں۔اس سے لوگوں کے دکھ کم نہیںہوں گے بلکہ آپ کی ساکھ متاثر ہوگی۔ نئے سال میں مہنگائی’ بیروزگاری اور افراتفری کا جو طوفان آرہا ہے اس نے سب کو خوفزدہ کررکھا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ”گھبرانا نہیں ہے” جبکہ لوگ ہیں کہ نت نئے اندیشوں میں گھرتے جارہے ہیں۔ خدشات سر اٹھارہے ہیں۔ غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ نئے سال کیلئے ہمیں چاہئے کہ اس کے آغاز سے ہی تیاری کریں۔ ڈائری رکھنے کی عادت ڈالیں۔ نہ صرف اپنے دوستوں کی فہرست میں اضافہ کریں بلکہ اپنے تمام یادگار لمحات کو اس میں قلمبند کرتے جائیں۔اس میں کچھ باتیں آپ کو خوشگوار لمحات کی یاد دلاتی رہیں۔ آپ انہیں جب بھی پڑھیں گے وہ لمحات آپ کے سامنے سلو لائیڈ فلم کی طرح گھومنے لگیں گے۔ کچھ ایسے واقعات انہیں پڑھ کر جب چاہیں یاد کرسکتے ہیں۔ خواہ وہ آپ کو افسردہ ہی کیوں نہ کرجائیں۔ خود ایسے واقعات بھی آپ کی زندگی میں گزریں گے جو بڑے سبق آموز ہونگے۔ آپ نے کب کسی پر بھروسہ کیا اور کب دھوکہ کھایا۔ آپ کو یاد آتا رہے گا کہ اعتماد کتنی توانا قوت ہوتی ہے۔ مستقل مزاجی اور احساس ذمہ داری پیدا کریں۔ آپ کو سوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ اوصاف آپ کی زندگی میں ایک انقلاب برپا کردیں گے۔ اپنے فیصلوں کو بار بار نہ بدلیں۔ کسی پر آپ کا یہ تاثر ہرگز نہیں جانا چاہئے کہ آپ عجلت پسند ہیں۔ وقت اللہ کی امانت ہے۔ دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں ہر بڑے انسان نے وقت کی قدر کی۔ وہی لوگ تبدیلی کا موجب بنتے ہیں۔ صلح جوئی کی عادت ڈالیں۔ ہوسکتا ہے گزرے ہوئے سال آپ کسی سے الجھے ہوں’ ممکن ہے اس میں آپ کی غلطی بھی نہ ہو۔ لیکن صلح جوئی میں پہل کریں۔ آپ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پر پیغام دیدیں۔ 2021گزر گیا۔ نیا سال آگیا۔ اب ہم ماضی بھلاکر پھر وہیں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ بھی سب کچھ بھلادیں۔ باہمی لڑائیاں ہمیں چڑچڑا بناتی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ صلح جوئی آپ کو ریلیکس کرتی اوراطمینان دیتی ہے۔ (جاری ہے)