شامل باجا
گل نوخیز
دسمبر 31۔۔2021
روزنامہ جنگ
بڑے عرصے بعد ایک شادی میں روایتی بینڈ باجے والوں کو سننے کا موقع ملا ورنہ اکثر لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ کوئی ’کمانڈو بینڈ‘ بلوا لیں۔یہ سارے ہی روایتی ہتھیاروں سے لیس تھے۔ بڑا باجا، چھوٹا باجا، شہنائی اور ڈرم۔بارات دلہن کے دروازے سے ایک گلی دور تھی۔ لڑکے کے باپ نے اشارہ کیا اور بینڈ والے شروع ہوگئے۔یہ میرے ایک دوست کے بھائی کی شادی تھی اور بڑے شوق سے بینڈ والوں کو بلایا گیا تھا۔دولہا کے باپ نے بینڈ والوں کو مانگے گئے پیسوں سے زیادہ پیسوں پر بلایا تھا لیکن شرط یہ تھی کہ گانے ہماری مرضی کے بجانے ہیں۔ بینڈ والے آنے والی قیامت سے بے خبر خوش تھے کہ جتنے پیسے مانگے ہیں اُس سے زیادہ مل رہے ہیں لہٰذا فوراً مان گئے۔ باجے سیدھے ہوئے ۔ دولہا کے باپ نے آگے بڑھ کر اُستاد جی کے کان میں کچھ کہا۔ استاد جی نے غور سے سنا اور پھر اچانک ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔انہوں نے کن اکھیوں سے اپنے سازندوں کی طرف دیکھا پھر اُسی رازداری سے دولہا کے باپ کے کان میں سرگوشی کی۔ دولہا کے باپ نے جو کچھ بھی سنا اس کے بعد اس کی مونچھیں وائبریشن موڈ میں آگئیں۔سب منتظر تھے کہ کب بینڈ والے شروع ہوتے ہیں لیکن سمجھ نہیں آرہی تھی کہ استاد جی اور دولہا کے باپ میں کیا رازونیازچل رہا ہے۔ میں نے جھجکتے ہوئے قدم آگے بڑھائے اور پتھر کی طرح ساکت کھڑے استاد جی کا کندھا ہلا کر کہا’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘۔ استاد جی نے آہستہ سے پورا چہرہ میری طرف گھمایا اور پلکیں جھپکے بغیر روبوٹ کی طرح بولے’’پابی چولو‘‘۔میں بوکھلا کر پیچھے ہٹا’’کیا مطلب؟‘‘۔ استاد جی نے رونی صورت بنا کر اپنی انگلی اٹھائی اور دولہا کے باپ کی طرف کردی۔مجھے فوراً ہی بات سمجھ آگئی۔ میں نے جلدی سے دولہا کے باپ سے سرگوشی کی’’انکل! ہر گانا بینڈ باجے پر نہیں بجایا جاسکتا، ویسے بھی اِن لوگوں کی چند گانوں پر ہی پریکٹس ہوتی ہے‘‘۔انکل غصے میں آگئے’’میں نے زیادہ پیسے اسی لیے دیے تھے کہ جو میں کہوں گا وہ اِنہیں بجانا ہوگا‘‘۔اُستاد جی نے ہاتھ جوڑ دیے’’موتیاں والیو! کسی شگنوں والے گانے کی فرمائش کریں‘‘۔ دولہا کے باپ نے کچھ سوچا، پھر لہک کر بولا’’اوکے وہ بجائو Beat it …‘‘ اُستاد جی کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے جلدی سے تھپکی دی’’مائیکل جیکسن کا مشہور گانا ہے ‘‘۔ استاد جی منمنائے’’بھائی جی بینڈ بجانا ہے یا ہمارا بینڈ بجانا ہے۔‘‘ میں نے دوبارہ انکل سے ریکوئسٹ کی کہ بارات لیٹ ہورہی ہے ، روٹین کے چند گانے بجالینے دیں بعد میں حساب کتاب کرلیں گے۔وہ تو قائل نہیں تھے لیکن چونکہ دولہا تاخیر کا متحمل نہیں ہورہا تھا لہٰذا مجبوراً اُنہیں ہتھیار ڈالنے پڑے۔ این او سی ملتے ہی اُستاد جی کا چہرہ کھل اٹھا اور اگلے ہی لمحے پوری گلی ’’دیساں دا راجہ ‘ ‘ سے گونج اُٹھی۔
یہ بینڈ جب گلی میں داخل ہوا تھا تو آٹھ سازندوں پر مشتمل تھا لیکن میں نے نوٹ کیا کہ اب سات سازندے نظر آرہے تھے۔ غیر ارادی طور پر میں نے دائیں بائیں دیکھا تو آٹھویں سازندے کی حرکات کچھ مشکوک سی محسوس ہوئیں۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا جس کے ہاتھ میں چھوٹا باجا تھا لیکن وہ جان بوجھ کر لوگوں کے رش میں چھپ رہا تھا۔مجھے تجسس ہوا۔ میں نے کان لگا کر غور سے اس کا باجا سنا تو پتا چلا کہ وہ باجا بجا نہیں رہا بس بجانے کا جھانسا دے رہا ہے۔گویا صحیح معنوں میں ’شامل باجا‘ ہے۔آدھے گھنٹے تک باجے بجتے رہے پھر بارات ایک کھلے میدان میں لگے ٹینٹ میں داخل ہوگئی۔ باجے والے دیگوں والی طرف جاکر بیٹھ گئے۔ایک دم سے ان کی اہمیت ختم ہوگئی تھی۔روایت کے مطابق اُنہیں باراتیوں کو نمٹانے کے بعد کھانا ملنا تھا۔’شامل باجا‘ بھی ایک طرف اینٹوں کی ڈھیری پر بیٹھا تھا اورمنہ دوسری طرف کیے ہوئے تھا، شاید اپنی پرفارمنس پر شرمندہ تھا۔ میں نے دلچسپی سے پہلے اس کی طرف دیکھا پھر کھانے کی ٹیبل پر نگاہ ڈالی جہاں جم غفیر جمع ہوچکا تھا۔ موقع اچھا تھا لہٰذا میں اٹھ کر شامل باجا کے پاس آگیا۔وہ ایک دم سنبھل کر بیٹھ گیا۔ میں نے اسے آنکھ ماری’’تمہیں باجا نہیں بجانا آتاناں‘‘۔ وہ جھینپ گیا اور قدرے سہمے ہوئے انداز میں اثبات میں سرہلادیا۔’’ابھی سیکھ رہے ہو؟‘‘۔ میں نے سوال کیا اور اس نے قدرے محتاط انداز میں دیگر بینڈ والوں کی طرف دیکھا جو گھاس پر لیٹے سستار ہے تھے، پھر آہستہ سے بولا’’ہاں جی‘‘۔ اس کے انداز سے لگا کہ وہ کچھ پڑھا لکھا بھی ہے۔میں نے سوال کیا تو حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ اس نے ایم اے کیا ہوا ہے ۔مزید کریدا تو پتا چلا کہ فلمی سین ہے یعنی نوکری نہیں مل رہی، دو جگہ ٹیوشن پڑھانے کے بعد بجلی کا بل اور گھر کا کرایہ تو بمشکل نکل آتا ہے لیکن کھانے کو کچھ نہیں بچتا لہٰذا یہ بینڈ جوائن کیا ہے۔ شروع شروع میں استاد جی نے فی شادی پانچ سو روپے دینے کی ہامی بھری ہے تاہم جب باجا بجانا آجائے گا تو یہ رقم ایک ہزار ہوجائے گی۔ بقول شامل باجا، مہینے میں دس بارہ شادیوں کے فنکشن آہی جاتے ہیں۔میں نے پوچھا’’لیکن تم تیسری ٹیوشن بھی تو پڑھاسکتے تھے؟‘‘ وہ ہنس پڑا’’ہاں لیکن تیسری بھی پڑھا لیتا تو گھرمیں ایسا کھانا پکنا ممکن نہیں تھا جیسا اس پیشے میں مل جاتاہے، بارات والے بھگت جائیں گے تو ان کا بچا ہوا اچھا خاصا کھانا ہمیں مل جائے گا۔ دو دو شاپر جیب میں رکھے ہوئے ہیں۔آج گھر میں میرا خاص طور پر انتظار ہورہا ہوگا۔‘‘ میں نے اسے گھورا’’تو پھر تم باجا بجاتے ہوئے چھپنے کی کوشش کیوں کر رہے تھے حالانکہ اتنے شور میں کسی کا دھیان تمہارے باجے کی طرف جاہی نہیں سکتا تھا بلکہ تم تو اب بھی منہ دوسری طرف کیے بیٹھے ہو‘‘۔شامل باجا تھوڑا سا کسمسایا پھر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی گردن کے پٹھوں کو دباتے ہوئے آہستہ سے بولا’’اصل میں وہ… بارات میں میرا ایک اسٹوڈنٹ بھی شامل ہے…‘‘