کراچی کے سمندر برد ہونے کا خطرہ
جی این مغل
فروری ۲۸۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
نڈس ڈیلٹا اور ساحلی پٹی کواگر سمندری پانی سے کاٹنے والی موجودہ صورتحال جاری رہتی ہے تو قوی امکان ہے کہ پاکستان کا مالی دارالحکومت کراچی 2060 ء تک سمندر برد ہوجائے، یہ انکشاف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشنو گرافی (NIO) کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بارے میں سینیٹ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سندھ کے دو اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کے 2050ء تک سمندر برد ہونے کے امکانات ہیں، باقی کراچی شہر جس کی آبادی دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، 2060ء تک سمندر برد ہوجائے گا اور اس طرح اس شہر کے دو کروڑ لوگ کسی نئی پناہ گاہ کی تلاش میں ہوں گے۔ ماحولیاتی ماہرین نے ان علاقوں میں اس قیامت کا ذمہ دار موسمیاتی تغیر اور ٹمپریچر کے اتار چڑھائو کے علاوہ ساحلی علاقوں میں بغیر منصوبہ بندی کے کئے جانے والے ترقیاتی کاموں کو قرار دیا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سمندر کی سطح مسلسل بلند ہونے کے نتیجے میں سندھ کے تین شہر یعنی کراچی، بدین اور ٹھٹھہ خطرے میںہیں لہٰذا اس خطرےسے بچنے کے لئے ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دنیا کےدیگر ڈیلٹائوں (Deltas) کی طرح انڈس ڈیلٹا میں بھی سمندری جارحیت ایک حقیقت ہے۔ ان کے مطابق ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع میں کئی ساحلی علاقے پہلے ہی بڑھتی ہوئی سمندری سطح کی وجہ سے سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کی بریفنگ کے دوران این آئی او کے سربراہ ڈاکٹر آصف انعام نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کراچی کے علاقے ملیرکا بھی ایک علاقہ سمندر برد ہوچکا ہے لہٰذا کراچی شہر تب تک محفوظ نہیں ہوگا جب تک اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدامات نہیں کئے جائیں گے۔ این آئی او کے سربراہ نے سینیٹ کمیٹی سے خطاب کے دوران خبردار کیا کہ بلوچستان صوبہ کے ساحلی شہر بشمول گوادر پورٹ، جسے چین بین الاقومی سمندری پورٹ کے طور پر ترقی دے رہا ہے،کو بھی سمندر کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے سونامی طوفان کا خطرہ درپیش ہے۔ سینیٹ کی اس کمیٹی میں شرکت کرنے والے حکومت بلوچستان کے ایک افسر نے انکشاف کیا کہ سمندری جارحیت کی وجہ سے گزشتہ 35سال میں بلوچستان کی 2 کلو میٹر ساحلی زمین سمندر برد ہوچکی ہے۔ پاکستان میں سمندری ساحل کی زمین سمندر برد ہونے کے بارے میں آئی یو سی این، ماحولیات کی وزارت اور یونائیٹڈ نیشن ایمرجنسی فورس (UNEF) کی طرف سے تیار کی گئی قومی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ساحلی علاقوں میں غیر منظم انداز میں کئے گئے ترقیاتی کا موں کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کا ساحلی علاقہ سمندر برد ہورہا ہے۔ یہ علاقے عام سمندری طوفان اور عربی سمندر سے اٹھنے والے طوفانوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ماحولیاتی رپورٹس کے مطابق اگر آئندہ 50سال تک پاکستان کے سمندری ساحل پر سمندری سطح موجودہ رفتار سےبڑھتی رہی تو سمندری سطح موجودہ سطح سے 50ملی میٹر 5cm بلند ہوگی اگر ایسا ہوتا ہے تو سمندری پانی ساحلی زمین کا کافی حصہ اپنے اندر سمولے گا۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق دریائے سندھ ہمالیہ کے پہاڑوں سے بڑے پیمانے پر گدلا پانی ساتھ لاتا ہے جو نیچے زمین پر اس طرح جمع ہوجاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا وجود میں آجاتا ہے مگر دریائے سندھ پر ڈیم بنانے کی وجہ سے جہاں یہ ڈیلٹا کافی کم ہوجاتا ہے وہاں نیچے کی طرف دریائے سندھ کے پانی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ ماحولیاتی رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے اوپر والے حصے میں انجینئرنگ ورکس کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا چھوٹاہوگیا ہے، دریا کے اوپر والے حصے میں ڈیم بننےکی وجہ سے اوپر والے حصے سے کم پانی نیچے کی جانب بہنے لگاہے جس کی وجہ سے طوفان کے دوران سمندری طغیاتی آجاتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ سمندری پانی کی طغیانی کے نتیجے میں اس علاقے سے لوگ بڑے پیمانے پر دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے ہیں، اس ایشو پر کی گئی اسٹڈی کے دوران یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ پاکستان کے ساحل کی جیوگرافی لاثانی ہے، اس لئے یہاںقدرتی خطروں مثلاً زلزلوں، تیز بارش اور سیلابی صورتحال پیدا ہونے کا کافی امکان رہتا ہے۔ سندھ یونیورسٹی کے ارتھ سائنسز کے پروفیسر سرفراز حسین نے این آئی او کے سربراہ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ کراچی، بدین اور ٹھٹھہ سمندر برد ہوجائیں گے۔ بریفنگ میں مقامی این جی او پاکستان فشر فوک فورم کے سربراہ نے سینیٹ کمیٹی کی بریفنگ میں حصہ لیتے ہوئے این آئی او کے سربراہ کے اس انکشاف کو ملک کیلئے Wake up Call قرار دیاتھا اور کہا تھا کہ 1956سے اب تک اس صورتحال کی وجہ سے سندھ کی 35لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہوچکی ہے۔ (جاری ہے)