موجودہ سیاسی بحران اور اسٹیبلشمنٹ کا
مخمص!
فیصل مسعود
مارچ ۱۳۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز
وزیرِاعظم عمران خان کی حالیہ تقریروں، شہباز شریف اورمولانا فضل الرحمٰن کی آئے روز میڈیا ٹاکس اور ’خوشگوار نوٹ ‘ پر اسلام آباد میں اختتام پذیر ہونے وا لے لانگ مارچ میںایک دوسرے کے خلاف استعمال کی گئی زبان کی تلخی، لہجے میں حقارت اور چہروں پرکچھی نسوںسے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ حاضر کے سیاسی مشاہیر کے بس میں ہو تو ایک دوسرے کو کچا چبا جائیں۔ ہماری سیاست میں سیاسی حریفوں پرذاتی حملے اور جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے نام بگاڑنا آج کی اختراع نہیں۔ منظم مہم کی صورت کردار کشی اگرچہ نوے کی دہائی میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب شریف خاندان سیاست میں وارد ہوا۔ عمران خان نے جمائما کے بعدریحام خان سے شادی کی تو وہ بھی ان حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔سلسلہ اب تک جاری ہے۔آج کل بعض مخصوص حلقوں کی طرف سے تضحیک پر مبنی ایسی ہی مہم چلائی جا رہی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ دنوں میں جہاں وزیرِ اعظم کے طیش کی ایک وجہ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کے تناظر میںکچھ ’پرانے ساتھیوں‘ اورکچھ اتحادیوںکا رویہ ہے تو وہیں ان کے لہجے کی بے پناہ تلخی کے پیچھے ذاتی رنج و غم کا بھی ضرور کچھ اثر ہے۔ وجوہات جو بھی ہوں یہ بہرحال طے ہے کہ ملک اس وقت انتشار کی اعصاب شکن کیفیت سے دوچار ہے۔کسی زندہ معاشرے میں کار فرما گروہوں کے مابین محاذ آرائی اچھنبے کی بات نہیں۔موجودہ صورتِ حال مگر قابلِ تشویش یوں ہے کہ متحارب گروہوں میں نفرتیں آخری حدوں کو چھو رہی ہیں جبکہ واپسی کے راستے معدوم ہو تے دکھائی دیتے ہیں۔ انصاف کی بات سننے اور کہنے کو کوئی تیار نہیں۔ مولانا کے وردی پوش جتھوں کی پار لیمنٹ لاجز سے بے دخلی کیلئے کئے گئے پولیس ایکشن پر اپوزیشن رہنمائوں کا ردِ عمل قابلِ فہم ہے، تاہم بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلح جتھوں سے الرجک دانشوروں ، جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کا پرچار کرنے والے صحافتی اور قانونی حلقوں کی جانب سے بھی تاحال انصار الاسلام کی پارلیمنٹ میں موجودگی پر کوئی مذمتی بیان دیکھنے کو نہیں ملا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے ایک حالیہ مضمون میں محمد وسیم کی تازہ کتاب Political Conflict in Pakistan میں سے حوالہ جات کے ذریعے پاکستان جیسے ملکوں میں آئے روز سیاسی محاذآرائی اور بے یقینی کی وجوہات پر دلچسپ بحث سمیٹی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ انتشار کی حدوں کو چھوتی دائمی سیاسی محاذ آرائی( (Political Conflict نو آبادیاتی تاریخ رکھنے والے ممالک میںناکام طرزِ حکمرانی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہے۔ہمہ وقت سیاسی بحران کی سی کیفیت کی وجوہات میں ماڈرن ریاست اور مذہبی روایت پرستوں میں کشمکش،ریاستی اداروں کی ساخت ، ان سے وابستہ توقعات اور زمین پر موجود ان کے حقیقی عزائم اور کارکردگی کے علاوہ مغربی جمہوریت کے اصولوںاور مقامی ومذہبی روایات کے مابین پائے جانے والے تضادات شامل ہیں۔بتایا گیا ہے کہ دائمی سیاسی محاذ آرائی Conflict میں دو مستقل فریقین میں جاری رہتی ہے، اُن میں سے ایک فریق مڈل کلاس پر مشتمل ہے کہ جو خود کو ریاستی اداروں کے ساتھ صف آراء پاتا ہے تو دوسری طرف دوسرا فریق روایتی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی صورت کھڑا نظر آتا ہے ۔ مڈل کلاس قومی مفادات(National Interest) کی بات کرتی ہے تو سیاستدان مقبولیت پر مبنی عوامی مفادات (Public interest) کو مد نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہر دو فریقین عالمی، علاقائی اور مقامی معاملات کو اپنی اپنی عینک سے دیکھتے ہیں۔ مصنف کا خیال ہے کہ اسی سیاسی محاذ آرائی کے نتیجے میں نوآبادیاتی ممالک میں سول ملٹری کشمکش جنم لیتی ہے۔ عمران خان ایک سیاست دان ہیں، مگراس باب میں ان کا مقام اچھوتا ہے کہ وہ مڈل کلاس اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بل بوتے پرکرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا نعرہ لے کر برسرِ اقتدارآئے ہیں۔چنانچہ سیاست دان ہوتے ہوئے بھی روایتی سیاستدانوں کو چیلنج کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔جوچند سیاسی جماعتیں اب تک ان کی اتحادی ہیں، اُن کی مجبوریوں اور اتحاد کے پسِ پشت محرکات کو سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہیئے۔ تاہم محمد وسیم کے پیش کردہ نظریئے کے عین مطابق تین بڑی سیاسی جماعتیںحکومت کے خلاف صف آراء ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نا صرف عمران خان کو اقتدار میں لانے بلکہ اس کے دوام کا بھی باعث ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے روایتی سیاستدانوں کے اسی گروہ نے اسی بناء پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نشانے پر رکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے نتیجے میں کئی ماہ تک فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو انتہائی کڑی اورکئی مواقع پر نامناسب تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عمران حکومت کی بظاہر کارکردگی (Perceived performance)کا نتیجہ ہے یا کہ مہینوں پر محیط اسٹیبلشمنٹ پر بے رحم تنقید کا اثر ہے کہ بحران کے عین عروج کے وقت متعین انداز میں غیر جانبدار رہنے کا اعلان کرنا ضروری سمجھاگیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ کسی حد تک ہردو پہلو کارفرما ہو سکتے ہیں۔اولاََ،کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی کارکردگی کی بناء پرمہنگائی کے ہاتھوں ستائے جونیئر اور مڈل رینکس اینڈ فائلز(مڈل کلاس) کی جانب سے سال 2014ء کے بعد اعلیٰ قیادت پر عمران خان کی حمایت کے لئے اٹھنے والے اندرونی دبائو کی شدت کسی حد تک کم ہو گئی ہے تو ثالثاََ گمان کیا جا سکتا ہے کہ ادارے کی ’الیٹ‘نے اپنے ایک ساتھی کے خاندانی کاروباری معاملات سامنے آنے اور مریم نواز کی جانب سے ان پر بے رحم تنقید کو دیکھتے ہوئے عبرت پکڑی اورکم از کم غیر جانبداری میں ہی عافیت جانی ہے۔ دکھائی تویہی دیتا ہے کہ بات تحریک کی ناکامی یا کامیابی پر ختم نہیں ہو گی۔محاذآرائی(Conflict) کی حالیہ خوفناک کیفیت میں اگرعدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جاتی ہے تو بے یقینی قائم رہے گی۔اسٹیبلشمنٹ پر اپوزیشن کا دبائو برقرار رہے گا۔تاہم اگر اپوزیشن عمران خان کو گرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے توکیا اسٹیبلشمنٹ کے لئے عمران خان کی حمایت کھو کر مغربی ممالک کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے والے سیاسی خاندانوں پر بھروسہ کرنا ممکن ہوگا؟ کیا کیری لوگر بل کی پیشگی شرائط کسی کو یاد ہیں؟ چنانچہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا عمران حکومت کے خاتمے کے بعد سول ملٹری کش مکش ختم ہو جائے گی؟ عمران خان کے مخالفین ان کو گرانا چاہتے ہیں۔کم ازکم پنجاب کے معاملے میں ناقابلِ فہم ضدنے یوں بھی اس باب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ عالمی حالات کے پیشِ نظر، اپوزیشن ملک کو درپیش خارجی،سیاسی اور معاشی چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہو گی، یہ بھی کوئی نہیں جانتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ محاذ آرائی کی جھلسا دینے والی تپش میںکون خود کو کس حد تک اورکب تک ’غیر جانبدار‘ رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے۔