Dr. Tahir 31

ایک اور سال ۔۔۔

ڈالٹر طاہر رضا

دسمبر 31۔۔۔2021

روزنامہ 92 نیو

ہر دفتر کی طرح ،میرے آفس میں بھی ، آئندہ سال کا نیا کیلنڈر ، نئے جذبوں اور ولولوں کے ساتھ، دیوار پر آویزاں کر کے ، گذشتہ ہوتے سال کا کیلنڈر اُتار دیا گیا ، جس کے ساتھ یقینا بہت سی یادیں اور کچھ حسرتیں بھی وابستہ تھیں۔۔۔ کہ گزرنے والے ان شب و روز میں، بہت کچھ کرنے کا ارادہ تھا ، مگروہ سب کچھ ہو نہ سکا،یہی زندگی اور انسان کی بے بسی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ عیسوی تقویم رائج ہے، جس کا آغاز رومن ایمپائر میں ان کے معروف حکمران جولیس سیزر نے کیا، اس لئے بالعموم اسی پر مشتمل کیلنڈر دستیاب ہوتا ہے، جبکہ میرے محکمانہ امور میں قمری کیلنڈر زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جس کے مطابق ہماری دینی عبادات اور اسلامی و روحانی امور و معمولات وقوع پذیر ہوتے ہیں، ان دونوں یعنی قمری اور شمسی ماہ و سال سے آراستہ، تقویم یا جنتری، ذرا مشکل سے فراہم ہوتی ہے، پہلے ایک کیلنڈر فراہم ہوا، جس کی ابتدائی قمری تاریخ ہی غلط تھی ، یکم جنوری 2022ء ، جس کا آغاز کل ہونے جا رہا ہے،کو قمری تاریخ 27جمادی الاول ہوگی ، جبکہ اس کیلنڈر پر 26جمادی الاول درج تھی،ذرا تلاشِ بسیار کے بعد، درست اسلامی تاریخ پر مشتمل کیلنڈر میسر آیا ۔ بہر حال عیسوی یا شمسی تقویم کے مطابق آج سال 2021ء کا آخری یوم ہے، زمین، سورج کے گرد اپنا ایک چکر 365دن، 5گھنٹے ، 48منٹ اور 46سیکنڈ میں مکمل کرتی ہے۔یوں، بالعموم اس مدت سے گھنٹے ، منٹ اور سیکنڈکو نظر انداز کر کے ، ایک عام سال کو 365دنوں کا شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ہر سال 5گھنٹے 48منٹ اور46سیکنڈ کا یہ زائددورانیہ ، چار سال میں 23گھنٹے ، 15منٹ اور 4سیکنڈ پر محیط ہو کر تقریباً ایک دن بن جاتا ہے ، یوں چار سال میں ، کیلنڈر، سورج کے گرد ، زمین کی سالانہ گردش سے تقریبا ایک دن آگے ہو جاتا ہے ۔ جسے اصل مقام پر لانے کے لیے ہر چوتھے سال ، ماہِ فروری میں، ایک دن کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ جس سال کے اعداد 4پر تقسیم ہو جائیں ، وہ “لیپ کا سال”کہلاتا ہے، جو کہ 366دن کاہوتا ہے۔ ہجری یا قمری تقویم میں زمین کے گرد چاند کی گردش کا نظام یکساں معیار کے مطابق ترتیب نہیں پاتا ، اس کی کیفیت اور گردش کاعرصہ مختلف مہینوں میں مختلف ہوتا ہے، اس کی ماہانہ گردش کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت میں 14گھنٹے تک کا فرق واقع ہو سکتا ہے ، مگر بالعموم کیلنڈر میں اس کی اوسط مدت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جس کے مطابق : ایک قمری مہینے کی اوسط مدت 29دن، 12گھنٹے ، 44منٹ اور تقریباً 3سیکنڈ ہوتی ہے۔ ایک قمری سال کی اوسط مدت 354دن 8گھنٹے 48منٹ اور تقریباً 34سیکنڈ ہوتی ہے ۔ عربوں کے ہاں قمری تقویم تو موجود تھی مگر اس کی مُسلمہ حیثیت نہ تھی ، بعض اوقات وہ اپنے ہاں کسی بڑے واقعہ کو بنیاد بنا کر، از خود کسی نئی تقویم کا آغاز کر لیا کرتے تھے ، جیسے ہم بالعموم ولادتِ با سعادت کے حوالے سے پڑھتے ہیں کہ آپ ﷺ کا ورودِ مسعود اور ظہورِ قدسی عام الفیل یعنی ہاتھی والوں کے سال میں،اس واقعہ کے 50روز بعد ہوا۔ عربوں کے ہاں چار مہینے حرمت والے تھے (ذی القعدہ ، ذوالحجہ، محرم ، رجب) وہ جب چاہتے ، اپنی جنگی چالوں اور ضرورتوں کے سبب، اس کو باہم ادل بدل کر لیا کرتے۔ ان کے ہاں دو مختلف نظام بھی موجود تھے ، ایک کیلنڈر تو خالص قمری تھا، جس کا ہر سال بارہ مہینوں پر مشتمل ہوتا، جبکہ دوسرا کیلنڈر جسے اصطلاحاً قمریہ شمسی (Luni-Solar) کہا جاتا ہے ، جو قمری اور شمسی دونوں اعتبار سے ترتیب پاتا، مؤخر الذکر میں بنیادی طور پر مہینے تو قمری ہی استعمال ہوتے تھے، مگر اسے شمسی یا موسمی سال کے مطابق کرنے کے لیے خاص خاص سالوں میں ایک مہینے کا اضافہ کر دیا جاتا ، جسے لوند کا مہینہ یا کبیسہ کہتے تھے۔عام خیال تو یہی ہے کہ کبیسہ کے سلسلے میں کوئی خاص ضابطہ مقرر نہ تھا ، جب ان کا جرگہ یا مقامی عمائدین سمجھتے کہ قمری سال اور موسمی سال کے درمیان ایک ماہ کا فرق آ رہا ہے ، جو کہ بالعموم ہر تین قمری سال میں تقریباً ایک ماہ کا فرق آ جاتا ہے، تو وہ یہ تبدیلی کر لیتے ، بعض روایات کے مطابق اس کا فیصلہ حج کے موقع پر ان کے اکابرین اور سرداران کیا کرتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر “نظام کبیسہ”کا یہ کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ فرما دیاکہ : ’’زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج آج نیست و نابود ، اور عزت و حرمت والے امور معتبر اور مسلمہ حیثیت اختیار کر گئے، جن کی عزت و حرمت گذشتہ زمانوں میں معزز و محترم تھی ، عرفات کے میدان میں آپ نے یہ اعلان فرما دیا کہ جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،تو اس وقت، سال کو بارہ مہینوں میں تقسیم کیا، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ) ان مہینوں میں جنگ و جدل جائز نہیں۔ عرفات کے بعد ،آپ ﷺ واپس منیٰ تشریف لائے، وہاں پر حاضرین کو ایک دوسرے خطبے سے مشرف فرمایا، حج میں شامل ہر طبقے کو اپنی اپنی جگہ بیٹھنے کا حکم دیا ، قبلہ کی دائیں جانب اشارہ کر کے فرمایا کہ سارے مہاجرین یہاں بیٹھیں ، پھر قبلہ کی بائیں طرف اشارہ کر کے فرمایا سارے انصار اس طرف بیٹھیں ، ان کے علاوہ حاضرین کو حکم فرمایا کہ ان کے اردگرد بیٹھ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کی آواز میں وہ قوت گویائی پیدا کر دی کہ لوگ منیٰ کے وسیع و عریض میدان میں جہاں کہیں تھے، حتی کہ جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے تھے ،وہ بھی اللہ کے محبوب کی آواز سن رہے تھے ۔ عمرو بن خارجہؓ حضور ﷺ کی اونٹنی کی گردن کے نیچے ایسے کھڑے تھے، کہ جو لعاب اونٹنی کے منہ سے ٹپک رہا تھا وہ حضرت عمر و کے دونوں کندھوں کے درمیان بہ رہا تھا، حضور ﷺ اس وقت اپنی اونٹنی عضبأ پر سوار تھے، سرور دو عالم ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ اس موضوع کے حوالے سے بہت قابل غور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: “حاضرین میری بات توجہ سے سنو! زمانہ گردش کرتے ہوئے اس حالت پر پہنچ گیا جب اس کا آغاز ہوا ، جس دن آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا گیا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں، تین لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور رجب جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئے۔صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے گمان کیا کہ شایدحضور ﷺ اس مہینہ کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔ حضور ﷺنے پوچھا کہ یہ یوم النحر نہیں؟ ہم نے عرض کی نَعَمْ یا رسول اللہ ﷺ! پھر فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺکچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے؟ ہم نے خیال کیا کہ شاید حضور ﷺ اس کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔ فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں؟ ہم نے عرض کی ، ہاں یا رسول اللہ! پھر دریافت فرمایا ، یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کی، اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ حضور ﷺ خاموش ہو گئے۔ ہم نے گمان کیا کہ شاید حضور ﷺ اس کا نام بدلنا چاہتے ہیں۔ حضور ﷺنے فرمایا، کیا یہ شہر مکہ نہیں؟ ہم نے عرض کی، بیشک یہ وہی شہر ہے۔ پھر فرمایا تمہارے خون ، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں جس طرح یہ حرمت والا دن، اس حرمت والے شہر میں ، اس حرمت والے مہینہ میں، عزت و شرف کا مالک ہے۔ اور عنقریب تم اپنے رب سے ملاقات کرو گے، وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ کان کھول کر سن لو! میرے بعد کافر نہ بن جانا۔۔۔ کہ ایک دوسرے کی گردنیںکاٹنے لگ جاؤ!

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.