خود شکنی پر تُلا بھارت
ڈاکڑت مجاہد منصوری
فروری ۱۲۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
انتہا پسند بھاجپائی راج کے بھارتی صوبے کرناٹک کی سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان خان نے کالج کی حدود میں داخل ہوتے ہی آر ایس ایس کے سینکڑوں غنڈوں کے برقع اتارنے کے مطالبے کو ، جے شری رام کے شور میں، تن تنہا اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر کے نعرے بلند کرکے مزاحمت سے جو مسترد کیا ، اس نے لمحوں میں بھارت میں تیزی سے پھیلتے ’’ہندوتوا‘‘ کی تصویر دنیا بھر کو دکھا دی۔ انتہا پسندوں کا مذہبی نفرت سے مخمور جتھہ مسکان کا برقع تو نہ اتروا سکا، لیکن 17سالہ بہادر طالبہ کے کمال اندازِ مزاحمت نے بھارتی سیکولر جمہوریہ کا پردہ چاک کرکے کل عالم کو مودی کے بھارت کا اصلی چہرہ دکھا دیا کہ یہ کتنا متعصب اور گھنائونا ہے۔ نفرت میں ڈوبے ہندوبنیاد پرستوں میں گھری مسلم طالبہ نے کلاس روم کی طرف بڑھتے پہنچتے بھارت کی بنتی شرمناک حقیقت اتنی جلد اور مکمل دکھانے کا جوکارِ عظیم انجام دیا ، وہ تو بڑے ڈپلومیٹک مشن برسوں میں نہیں کرپاتے، نہ کروڑوں کے سرمائے سے ہائر کی گئی لابنگ فرمز یہ نتائج حاصل کرسکیں۔ یہ کمال تو مسکان نے کیا ہے اور اس کے عزم و ہمت کو دنیا بھر میں گھرگھر تک پہنچانے والے سوشل میڈیا نے۔ غزہ میں گزشتہ سال اسرائیلی فضائی بمباری سے ایک رہائشی علاقے کے ملبے پر روتی 10سالہ بچی کے اٹھائے گئے پریشان کن سوالوں کے اثر انگیز منظر کے بعد مسکان کی رائے اور رجحان ساز سحر انگیز مزاحمت کی ویڈیو پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کااسٹڈی اورینٹڈ کیس ہے۔ ’’پاور آف ون‘‘ کو سوشل میڈیا کی اثر انگیز معاونت کی ہر دو کیس اسٹڈیز، میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے اسکالرز، اساتذہ اور طلبہ کو حاصل ہوتے علم و تحقیق کا بڑا سامان بن گئیں۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ ہر دو کیسز سوشل میڈیا پر ورلڈ ٹاپ ٹرینڈ بن گئے۔ مسکان خان ہندو بنیاد پرستی کے خلاف مزاحمت کے استعارے کی شکل اختیار کرکے متعلقہ لٹریچر کا حوالہ بن گئی۔ جس طرح 10 سالہ فلسطینی بچی کے اسرائیلی بربریت کے خلاف طاقت ور سوالوں نے بڑے بڑے سیاسی مکاروں کےبھی دل دہلا دیئے تھے۔ دونوں کی مزاحمت اور سوال دنیا بھر کے ایوان ہائے نمائندگان، مراکزِ اقتدار اور عالمی رہنمائوں، میڈیا اور عالمی رائے عامہ پر گہرائی سے اثر انداز ہوئے۔ مسکان کی مزاحمت پر تو بھارتی میڈیا کو نہ صرف مکمل دفاعی پوزیشن لینی پڑ رہی ہے بلکہ ’’مسکان کوریج‘‘ پر سوشل اور مین اسٹریم، دونوں ہی میڈیا میں اپنے اپنے انداز سے مقابلہ جاری ہے۔
سیاسی ملاوٹ اور مذہبی ونسلی آلودگی کے باوجود جدید بھارت اپنی 57سالہ تاریخ میں خود کو دنیا میں کامیاب ترقی پذیر ’’سیکولر جمہوریہ‘‘ کے طور پر منوانے میں تو بہرحال کامیاب جا رہا تھا لیکن جو کچھ سات سال سے مودی کے ’’ہندوتوائی بھارت‘‘ میں ہو رہا ہے، یہ اپنی جگہ تشویش سےبھری سیاسی مکاری سے لبریز طویل کہانی ہے۔ بلاشبہ اس تاریخ میں کانگریس کے غلبے کو وجہ کے طورپر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کانگریس کے طویل دور میں ماڈرن انڈیا کے بگ برین اور پولیٹکل جینئس ڈاکٹر ایمبیڈکر بھیم رائو کے مرنے سے قبل ہندومت ترک کرکے بدھ مت اختیار کرنے سے انتہا پسند مودی راج تک، 57 سالہ بھارتی سیاسی تاریخ بھی ڈاکٹر ایمبیڈ کر کے بنائے کمال اسمارٹ سیکولر جمہوری آئین سے متصادم کتنے ہی واقعات، پالیسیز، حکومتی اقدامات اور بالادستی کے حکومتی رویے پر مبنی سچی، پکی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔
یہی بنی تاریخ آج بھارت کے آر ایس ایس کی گرفت میں آ کر کانگریس دور کے ڈیزاسٹرز کا دور رس نتیجہ ہے۔ اب انڈین ری پبلک آج اپنے داخلی استحکام کی جس پیچیدہ صورت حال سے دو چار ہوئی ہے اس میں تشویش و خطرناک صورتِ حال بھارتی حالات ِحاضرہ کا مستقل فیچر بن گیا ہے۔
گزشتہ دو ماہ میںآسام میں اجاڑی مسلم بستی سے بچتے نکلتے دیہاتی کو باوردی مسلح سرکاری کارندوں کا گھیر کر فائرنگ سے ہلاک کرنا اور لاش پر کودنا، نینی تال کے نواحی قصبے ہردوائی میں ہندومہا سبھا کو نسل کے اجلاس میں لیڈر کی بھارت کو مسلمانوں سے مکمل پوتر کرنے کے لئے بھرے مجمع اور میڈیا کی موجودگی میں 20 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی تجویز اور اب مسکان کو کالج میں داخل ہوتے ہی، ایک ہی جیسے گیروی پٹکے گلوں میں ڈالے آر ایس ایس کے غنڈوں اور کچھ انتہا پسند طلبا کا بھی برقع اتروانے کے لیے دھاوااور دھمکیاں تو وہ واقعات ہیں جورپورٹ ہو کر پوری دنیا میں وائرل ہوگئے۔ مین اسٹریم انٹرنیشنل میڈیا کوبھی بھارتی ’’بڑی منڈی‘‘ اور ’’اسٹرٹیجک اتحادی‘‘ کی بھارتی فرینڈلی پوزیشن کو نظر انداز کرکے اپنی ساکھ کے لئے رپورٹ کرنا پڑا۔ وگرنہ گلی، محلے، گائوں، کھیتوں ، فیکٹریوں اور دفاتر میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ مسلمان دکاندار اور خوانچہ فروشوں کے بائیکاٹ کی مہم بھی جاری ہے۔ اندازہ بالی وڈ کے اجاڑ اور مسلم فن کاروں کے چپ سادھنے یا ادھر ادھر ہونے سے لگایا جاسکتا ہے۔ اوپر سے مقبوضہ کشمیر کا تیار ہوتا آتش فشاں ، مشرقی پنجا ب اور شمال مشرقی علیحدگی کی تحاریک میں عشروں سے مصروف ریاستوں پر نئی دہلی کی ڈھیلی پڑتی گرفت، شمال میں متنازعہ سرحدی علاقوں میں چین سے جنگ کا خوف اور کچھ علاقہ گنوا دینے کے بعد ہمسایوں سے بھارت کے دو طرفہ تعلقات کی وسیع ہوتی دراڑیں۔ یہ سب بھارت کو خودشکنی کی طرف دھکیلتی جا رہی ہیں۔ آئین و قانون کوبلڈوز کرکے آئین کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ جس پر کشمیری اور پاکستان ہی نہیں چین بھی سیخ پا ہے اور آرٹیکل 35-Aختم کرکے کل مسلمانان ہند کو تیسرے درجے کا شہری بنانے کا پارلیمانی اقدام ، کانگریس دور میں جموں کی ڈیمو گرافی کی تبدیلی کے بعد اب مقبوضہ کشمیر کو قتل و غارت سے ہندو اکثریتی بنانے کے حکومتی اقدامات، امریکی جینو سائیڈ واچ کے بانی گری گوری سٹینٹن کی امریکی کانگریس کو مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بریفنگ میں ’’جینو سائیڈ کےالارم بجنے‘‘ کا انتباہ کرنا اور بہت کچھ ایسا ہی اَن رپورٹیڈ، مکمل واضح کررہا ہے کہ مودی کا بھارت خود شکنی پر تلا بیٹھا ہے۔ اسلحے کے ڈھیروں اور عالمی جنگوں کے اتحادی بننے سے بھارت کوئی بچ جائے گا؟ نہیں،پورے بھارت میں خطرناک انتہا پسندی کے بڑی تعداد میں عملی مظاہرے اور انہیں حاصل مکمل حکومتی سرپرستی اس کی مکمل نفی کر رہی ہے۔