مشرقی ایشیا کا معاشی نمو کا ماڈل
ڈاکٹر اشتیاق حسین
مارچ ۱۲،،،۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
چوتھا سبق نجی شعبے پر انحصار ہے۔ ان معیشتوں نے نجی شعبے کو اشیا اور خدمات کی پیداوار، تقسیم اور تجارت کی کھلی اجازت دی۔ جاپان نے بڑے صنعتی گروہوں کیریٹسس/زائیباٹسس کے ذریعے یہ منزل حاصل کی۔ یہی کچھ کوریا نے چائیبولز کے ذریعے کیا۔ تائیوان نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے ذریعے صنعت کاری کو فروغ دینے کی قدرے مختلف حکمتِ عملی اپنائی۔ چین، تھائی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن اور ملائیشیا نے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی۔ چینی معیشت میں سرکاری اداروں کا حصہ 100 فیصد سے کم ہو کر 30-40 فیصد رہ گیا۔ مقامی حکومتوں کے زیر ملکیت زیادہ تر دیہی کاروباری اداروں کی رہنمائی مارکیٹ کے اشاروں سے ہوتی تھی۔ ان کی فعالیت بھی نجی شعبے جیسی تھی۔
ویت نام کی معیشت نے 250 بلین ڈالر کی براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ ان حکمتِ عملیوں کی کامیابی کا اندازہ پراڈکٹ سائیکل کی منتقلی سے لگایا جا سکتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں آر سی اے اور ویسٹنگ ہاؤس جیسی امریکی فرموں نے دنیا بھر کی گھریلو مصنوعات کی مارکیٹوں پر غلبہ حاصل کر لیاتھا۔ 1980 کی دہائی میں جاپانی کمپنیوں نے اس مارکیٹ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد 1990 کی دہائی میں یہ پیداوار سام سنگ، ایل جی وغیرہ کے ساتھ کوریا منتقل ہو گئی۔ پچھلی دہائی میں ہائیر جیسی چینی کمپنیوں نے منڈی میں اپنی توانا موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا۔ پرائیویٹ سیکٹر کی فرمیں بدلتی ہوئی مارکیٹ کے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرتی رہیں۔انہوں نے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کے مطابق پیداوار کی کم لاگت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
پانچواں سبق تجارت، سرمایہ کاری اور برآمدات کے لیے معیشت کو کھولنا ہے۔ اس کی وجہ سے مشرقی ایشیائی ممالک نے اچھی کارکردگی دکھائی۔ ٹیرف کی شرح یکساں طور پر کم، سنگل ہندسوں میں ہے۔ نان ٹیرف رکاوٹیں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے تیز تر کوششوں نے اشیا اور خدمات کی درآمد اور برآمد دونوں کو اس حد تک سہارا دیا ہے کہ ملائیشیا اور ویت نام میں تجارت اورجی ڈی پی کا تناسب 100 فیصد سے زیادہ ہے۔ 1970 کی دہائی کے اواخر میں چین اور ہندوستان دونوں کی برآمدات تقریباً 10 بلین ڈالر تک تھیں۔ چین کی جانب سے نسبتاً زیادہ کھلی تجارتی پالیسی نے اسے گزشتہ سال اپنی برآمدات کو 2590 بلین ڈالر سے زیادہ تک بڑھانے کے قابل بنادیا ہے جبکہ بھارت بھی 276 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ تمام ایشیائی ممالک کی طرف سے براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ کا خیرمقدم کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے نئی ٹیکنالوجی، بہتر انتظامی مہارت، عالمی سپلائی چین کے علاوہ نیٹ ورکنگ اور غیر ملکی سرمائے کی صورت ملکی معیشتوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ 2020 میں مشرقی ایشیا میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا بہاؤ 292 بلین ڈالر تھا۔ چین نےاکیلے 150 بلین ڈالر حاصل کیے۔ زیادہ تر غیر ملکی ادارے نہ صرف چینی منڈیوں بلکہ برآمدات کے لیے بھی سامان تیار کرتے ہیں۔ گزشتہ دس سال میں چین کی برآمدات میں 65 فیصد اضافہ غیر ملکی فرموں اور ان کے مشترکہ منصوبوں کے ذریعے ہوا۔
چھٹا سبق علاقائی انضمام ہے۔ ایک سوال جو اکثر پوچھا جاتا ہے،وہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر معاشی افراتفری، امریکی اور یورپی معیشتوں میں سست روی، مجموعی طور پر جمود کےدِنوں میں بھی ایشیائی معیشتیں کیوں بہت زیادہ شرح نمو دکھاتی رہی ہیں؟ 1990 کی دہائی کے وسط کے ایشیائی بحران، 2008 کی عالمی کساد بازاری اور حالیہ وبائی مرض، کوویڈ کے جھٹکوں کا کامیابی سے کیسے مقابلہ کر پائیں؟یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ علاقائی تجارتی انضمام نے ان کو محفوظ رکھایا مذکورہ بیرونی جھٹکوں کے اثرات کو کافی حد تک کم کر دیا۔ علاقائی تجارت کے بڑھتے ہوئے حصے نے انہیں عالمی معیشت میں پیدا ہونے والے تلاطم سے تہہ و بالا ہونے سے بڑی حد تک بچا لیا۔ مشرقی ایشیاکی علاقائی تجارت میں اضافے کے عالمی تجارت کیساتھ تقابلی جائزے میں فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر1975-2001 کے درمیان علاقائی تجارت میں 16.4 فیصد سالانہ کی شرح سے اضافہ ہوا۔ اس دوران عالمی برآمدات 8.2 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی تھیں۔ چین ایک ایسا محور بن چکا ہے جس پر خطے کے ممالک انحصار کرتے ہیں۔دوسری طرف جنوبی ایشیا دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں علاقائی انضمام برائے نام ہے۔
ساتواں سبق یہ ہے کہ تعلیم، صحت، پینے کے پانی، صفائی ستھرائی، غذائیت اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کے ذریعے انسانی ترقی میں سرمایہ کاری کی جائے۔ اس نے مشرقی ایشیائی ممالک میں غربت میں کمی اور سماجی اشاریوں میں بہتری میں اہم کردار ادا کیا۔ صحت کی سہولیات ان بیماریوں پر مرکوز ہیں جو خاص طور پر غریبوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں خواندگی کی شرح تقریباً 100 فیصد ہے۔ ان ممالک کی معیشتوں اور سماجی بہتری کے اشاریوں پر تعلیم کے اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔
آٹھواں سبق افرادی قوت کا معیار ہے۔ انسانی ترقی کا گہرا تعلق لیبر فورس کی تربیت اور اسکل اپ گریڈیشن سے ہے۔ ایشیائی ممالک نہ صرف تعلیم یافتہ کارکنوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کارکنوں کو نئے علوم، پیداوار کی تکنیک یا پروسیسنگ میں بہتری کے لیے مسلسل تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔ 1991میں ایک امریکی مینوفیکچرنگ کارکن، چینی کارکن کی نسبت 40گنا زیادہ پیداوار دیتا تھا۔ 2000 تک یہ فرق کم ہو کر صرف 10گنا رہ گیا