ماسٹر
بللال رشید
جنوری 5۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
دمی کو اپنے دماغ، اپنی منصوبہ سازی کی صلاحیت پہ بہت ناز ہے۔ وہ کہتاہے کہ ایک چیز اس کے تخیل میں آتی ہے، وہا ں سے وہ فکشن سے ہوتی ہوئی حقیقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ بڑے سے بڑے جانور کو وہ ذبح کر کے کھا لیتا ہے۔ ان پہ سواری کرتا اوروزن اٹھواتا ہے۔ ڈائنو سار بھی اگر آدمی کی پیدائش سے کروڑوں برس پہلے ہلاک نہ ہو جاتے تو کیا آج وہ ہمارے میزائلوں اور ٹینکوں کا سامنا کر پاتے؟ کون سوچ سکتا تھا کہ پروں سے محروم مخلوق ہوا میں اڑنا شروع کر دے گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس انسان میں کوئی خاص صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہو، اس کی بدن بولی بدل جاتی ہے۔ دوسروں کے مقابل وہ ایک سرور کی کیفیت میں رہنے لگتا ہے۔ اپنی منفرد صلاحیتوں کی بنیاد پر کرۂ خاک پہ راج کرنے والا انسان شروع ہی سے دوسری مخلوقات کے سامنے ایک نشے کی حالت میں رہنے لگا تھا۔ اس نشے میں وہ اپنے مادی جسم کی خوفناک کمزوریوں کو بھی یوں نظر انداز کر دیتا، جیسے وہ ہیں ہی نہیں۔ آدمی کو اپنے علم و عقل پہ بہت ناز ہے۔ اس سے بڑی Miseryاور کیا ہو سکتی ہے کہ موت آتی ہے تو دنیا کا سب سے بڑا دماغ اس بے بسی سے مر جاتاہے، جیسے ایک مرغی یا بکری مرتی ہے۔ اس صدی کے سب سے بڑے دماغ اسٹیفن ہاکنگ کو ماسٹر آف دی یونیورس کہا جانے لگا تھا۔ ماسٹر آف دی ارتھ نہیں، ماسٹر آف دی یونیورس۔اس ماسٹر کی حالت یہ تھی کہ عشروں وہ ایک انگلی ہلانے سے بھی قاصر رہا۔ آپ نے خطاب ہی دینا ہے تو اسے برین آف ہسٹری کہہ لیں۔ جینئس آف ہسٹری کہہ لیں۔
شروع شروع میں کمپیوٹر آیا تواسے ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں رکھنے کی ضرورت ہوتی تھی کہ گرم ہو کر خراب نہ ہو جائے۔ پیچیدہ مشینوں کو آج بھی مٹی اور گرمی سے بچانا ہوتا ہے۔ ہمیں کبھی یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ زندہ چیزوں کو کس قدر حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے؟ آج کوئی ستارہ پھٹے، اس کا دھماکہ اور ریڈی ایشنز زمین پہ پڑیں او ر آپ کی اوزون ہی نہیں، پوری فضا اڑا لے جائے، چند منٹ میں یہ کرّہ ء خاک لاشوں سے اٹ جائے۔ چلیں باہر سے کچھ بھی نہ ہو، ہم سب ایک دوسرے کے سامنے باری باری مر رہے ہیں۔ ہمارے اجداد ہمارے سامنے مرے۔ ہمارے کئی جوان دوست مرے لیکن اپنی طاقت کا ایسا نشہ اور زندگی کی ایسی مستی انسان پہ چھائی رہتی ہے، جو اس کی موت پہ ہی تمام ہوتی ہے۔ ایک بدمعاش یاد آتا ہے، جس نے بہت بڑے رقبوں پہ قبضہ کیا ہوا تھا۔ اس کا جگر جواب دے گیا۔ وہ موت کے منہ میں تھا اور سب اسے دیکھ کر عبرت پکڑ رہے تھے۔ چین لے جا کر اس کے جگر کی پیوند کاری کی گئی۔ وہ پھر اپنی ٹانگوں پہ کھڑا ہو گیا۔ ایک ڈیڑھ سال اس نے پھر مخلوق پہ وہ ستم ڈھائے کہ خدا کی پناہ۔ ابھی تو یہ شخص موت کے منہ سے نکلا ہی تھا۔ اس کے بعد پیوند شدہ جگر نے جواب دے دیا اور بے بسی سے وہ مر گیا۔ آج بھی اس کی اولاد وہی سب کچھ کر رہی ہے۔
ایک عمارت میں ایک ٹائم بم نصب ہے اور ہم اس بم کو نظرانداز کرتے ہوئے دیوانوں کی طرح قیمتی اشیا نکالنے میں مصروف ہیں۔ وقت پورا ہو جاتا ہے۔ عمارت دھماکے سے اڑ جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی سونا ہاتھ میں دبائے انسان بھی مر جاتا ہے۔ ہمارا جسم ایک حیاتیاتی عمارت ہے اور اس میں ایک ٹائم بم لگا ہوا ہے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ مہلت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ میں نے ایک دل کا مریض دیکھا، جو جائیداد اکٹھی کرنے کی خواہش میں نیم پاگل ہوچکا تھا؛حالانکہ خود ڈاکٹر ہے۔ اس سے زیادہ کون جانتا ہے کہ موت کا فرشتہ روح قبض کرنے کو تیار کھڑا ہے۔
ایک شخص نے پانچ کلومیٹر کا سفر طے کرنا ہے۔ اس سفر کو طے کرنے کے لیے وہ پچاس بوریاں گندم کی اکٹھی کر چکا ہے او رپاگلوں کی طرح مزید بوریاں بھر رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ زادِ راہ ساتھ لے جا سکے۔ عمر بڑھتی جا رہی ہے، چہرے پہ شکنیں پڑ رہی ہیں، عزیز رشتے دار مر رہے ہیں، شوگر ہائی ہوچکی، بلڈ پریشر بڑھ چکا، وزن بے تحاشا، بال سفید، گھٹنوں میں درد، سر چکراتا ہے لیکن جب تک سانس میں سانس ہے، مال اکٹھا کرنے کی مہم سے باز نہیں آنا۔ اس مال پہ پھر اولاد نے لڑنا ہے۔ رزق کی تعریف یہ فرمائی گئی تھی کہ جو انسان واقعی استعمال کر پاتا ہے، وہی اس کا رزق ہے۔ پانچ سات سال پہلے ایک شوگر مل کی ملکیت پر سندھ کے دوبوڑھے سیاستدان اس طرح لڑے کہ دنیا نے دیکھا۔ان میں سے ایک کی حالت یہ ہے کہ دونوں ہاتھ استعمال کر کے چائے کی پیالی نہیں پکڑ سکتا۔ انجیکشنز لگوا کے تقریر کرنے آتا ہے۔ایک اور ہے جس کے گلے میں لندن کے فلیٹس پڑے ہوئے ہیں، جو برے وقت سے بچنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ دونوں بھائیوں کے خاندان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ انسانی عقل و دانش کا عالم یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی سپرپاور دو ہزا ر ارب ڈالر افغانستان میں ایک غیر ضروری مہم جوئی پہ پھونک کر رخصت ہوئی۔ اب وہاں انسان بھوکے مر رہے ہیں۔
وہ اکیلا ہی نہیں، ہم سب اپنی اپنی جگہ بہت بڑے ماسٹر ہیں