غلط قیمت لگاتا ہوا انسان
بلاللرشید
فروری ۱۷ ۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
ستاروں سے لے کر انسان تک، اس دنیا میں جتنی بھی جاندار اور بےجان چیزیں ہمیں نظر آتی ہیں، سب گنتی کے کچھ عناصر سے مل کر بنی ہیں۔ تخلیق کرنے والا چاہے تو کاربن کو لکڑی بنائے، ہیرا یا اسی سے انسان کا جسم بنا ڈالے۔ جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، وہ قیمتی عناصر پر جنگ لڑتا آیا ہے۔ شروع میں پانی اور خوراک پہ جنگ و جدل ہوا کرتی تھی۔ پھر تجسس کے مارے ہوئے آدمی نے زمین کھودنا شروع کی۔ اسے ہیرے ملے۔ قیمتی چیزیں کون سی ہیں؟ ہیروئن جیسے کیمیکلز لاکھوں ڈالر فی کلو میں فروخت ہوتے ہیں۔ افزودہ یورینیم اور سینٹری فیوجز۔ لانگ رینج میزائل بنے تو لوہے سے ہیں لیکن ان کی اصل قیمت ان کے ڈیزائن اور نقشے ہیں۔ آپ کیپلر اور جیمز ویب دوربین کی کیا قیمت لگائیں گے؟
اب آپ جانوروں کے سامنے ایک سپر کمپیوٹر رکھیں، جو سیٹلائیٹس کو کنٹرول کر رہا ہو۔ وہ اسے دولتی رسید کر دیں گے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ جانور بےوقوف ہیں۔ اب آپ ایک ارب پتی شخص کو ہیروں سے بھرے ہوئے کمرے میں بند کر دیں۔ جب وہ بھوک سے مررہا ہوگا تو دانۂ گندم اس کے لیے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہو جائے گا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم چیزوں کو غلط قدر و قیمت دے رہے ہیں۔ آپ ہیروں پہ لڑتے ہیں اور آخر میں اس کا زیور بنا کر پہن لیتے ہیں۔ آپ کے مرنے کی دیر ہے، زمین اور ہیرے کسی اور کو سونپ دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جو چیز میری تھی ہی نہیں، میں اس پہ لڑتا رہا۔ زمین کی قیمت لاکھوں اور کروڑوں میں ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ زمین کے لیے قتل ہوتے اور قتل کرتےرہے۔ اس زمین کا حال یہ ہے کہ ادھر ایک شخص مرا، یہ زمین دوسروں کو منتقل ہوئی۔ جو چیز انسان کی ملکیت ہی نہیں، وہ چار دن اس پہ فخر کرتا ہے اور پھر اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے ایک سوچتا ہوا دماغ۔ ایک دماغ جو کہ جانتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ علم رکھنے والا اور بےعلم برابر نہیں ہو سکتے۔ اسی دماغ نے لوہے کو انجن میں بدلا۔ اسی نے یورینیم افزودہ کی۔ یہی جاننے والا دماغ پہاڑوں کے سامنے دیوار بنا کر اسے ڈیم بنا ڈالتا ہے۔ یہی سوچنے والا دماغ ہے جو کورونا کو پہچان کر اس کی ویکسین بناتا ہے۔ یہی سوچنے والا دماغ ہے جو جیمز ویب دوربین بن جاتا ہے۔ ساری ایجادات اس سوچتے ہوئے ذہن کی بدولت ہیں لیکن کیا یہ سوچتا ہوا دماغ اپنے حقیقی فائدے کے بارے میں سوچ رہا ہے؟
ہم جانور کو بےوقوف سمجھتے ہیں کہ ہیرے کی قدر و قیمت نہیں رکھتا۔ ہم کبھی خود کو بےوقوف خیال نہیں کرتے جب ہم زمین اور سونے جواہرات کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں۔ انسان کو اس قدر دور اندیش عقل جو اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، ایک خاص مقصد کے لیے دی گئی تھی۔ یہ مقصد ہے خدا کی پہچان اور اپنی ذات کا عرفان۔ باقی تمام فائدے ثانوی اور ضمنی نوعیت کے ہیں۔
جب عقل اپنے اس خصوصی اور اصل مقصد پر مرتکز نہیں ہو پاتی تو پھر اس کی تمام تر توجہ ادنیٰ مادی فوائد تک رہ جاتی ہے۔ انسانوں کی ایک عظیم اکثریت کششِ ثقل پہ سوچنے والے سائنسدان کو پاگل ہی سمجھتی رہی کہ بجائے وسائل کی ملکیت پہ لڑنے کے وہ ایک بیکار سوچ میں گم ہے۔ پوری زندگی انسان اپنی دولت میں اضافے کے لیے ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے۔ جو غریب ہوتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ان کے پاس اگرایک خاص حد تک دولت آجائے تو باقی زندگی وہ خوش رہیں گے؛ حالانکہ دولت ایک سراب ہے، جس کی پیاس کبھی بجھ ہی نہیں سکتی۔ دوسری طرف امرا آپ کو غریبوں سے زیادہ پریشان نظر آئیں گے۔ ایک شخص کو پارکنسن ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کی ساری مال و دولت اسے راحت تو دے نہیں سکتی۔ دنیا کے سب سے بڑے مشہور سائنسدان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ ساری زندگی اپنی ایک انگلی بھی ہلا نہیں سکتا۔ آپ سیاسی اشرافیہ کو دیکھ لیں۔ نواز شریف سے اسحٰق ڈار اور ڈاکٹر عاصم حسین تک کسی کی بھی حالت دیکھ لیں۔ زرداری صاحب سے ملنے والے عجیب و غریب کہانیاں سناتے ہیں۔
تیسری طرف انسان کا رزق مقدر کر دیا گیا ہے۔ وہ رزق ہے کیا؟ جو ہم کھاتے اور اوڑھتے ہیں، جو ہم دنیا کی زندگی میں واقعی استعمال کرتے ہیں۔ لکڑی کے بنے ہوئے جس بیڈ پر میں سوتا ہوں، وہ میرا رزق ہے۔ جس مٹی کی جو اینٹ میرے گھر میں نصب ہے، وہ میرا رزق ہے۔ میرے اگر پچاس گھر اور بھی ہیں تو وہ میرا رزق ہرگز نہیں بلکہ ملازموں کا۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا۔ انسان اپنی زندگی میں بہت کم چیزیں استعمال کر سکتاہے اور جو وہ استعمال کرتا ہے، وہی اس کا رزق ہے۔ایک غریب مزدور اینٹیں اٹھاتا ہے۔ آپ کے نصیب میں اگر بوجھ اٹھانا ہی لکھا ہے تو آپ جیب سے پیسے دے کر جم میں وزن اٹھائیں گے۔ راحت اگر لکھی ہے تو حالات کا مارا ہوا آدمی بھی دوستوں میں قہقہے لگاتا نظر آئے گا۔ اگر نہیں تو کھرب پتی بھی مائیگرین سے تڑپے گا۔
بات ہو رہی تھی دنیا کی سب سے قیمتی چیز کی۔ کائنا ت کی سب سے قیمتی چیز وہ عقل ہے، جسے خدا کی طرف سے بصیرت عطا ہو ئی ہواوروہ خدا کی طرف متوجہ ہو۔ باقی چیزیں عارضی استعمال کے لیے دی گئی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عقل کی بات کرنے والا شاذ و نادر ہی کوئی نظر آتا ہے۔ دنیا کی سب سے قیمتی چیز کی بے قدری کرنے والے کو آپ کن الفاظ میں یاد کریں گے؟ قرآن کے الفاظ میں ظالم اور جاہل!