Ashraf Sharif 5

روس یوکرین جنگ اور پاک بھارت تعلقات

اشرف شریف
مارچ ۵۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز   

روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو پاکستانی طلباء کی طرح 40ہزار کے قریب بھارتی طلباء اور شہری بھی مدد کے لئے ہاتھ پائوں مارنے لگے۔مشکل میں پھنسے کسی ایک بھارتی طالب علم نے یوکرین میں موجود پاکستانی قونصلیٹ سے مدد طلب کی۔بھارتی طالب علموں کو محفوظ مقام پر ٹھہرایا گیا بلکہ ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا۔Stuti singhنے بھارتی طالب علم کی بنائی ویڈیو پاک انڈیا ہیریٹیج کلب کے فیس بک پیج پر شیئر کی۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رومانیہ کے بارڈر پر پاکستانی طلباء کے ساتھ بھارت کے طلباء موجود ہیں۔ ایک خاتون vinaya saijwaniنے ویڈیو کے نیچے کومنٹ والے حصے میں اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔ونایا نیو یارک میں رہتی ہیں۔ان کے والد سندھ سے نقل مکانی کر کے بھارت اور پھر نیو یارک گئے۔کسی کام کے سلسلے میں ونایا کو اپنے والد کا برتھ سرٹیفکیٹ درکار تھا۔انہوں نے پاکستانی سفارت خانے فون کیا اور تمام ماجرا بیان کیا۔تھوڑی دیر بعد سفارتخانے کے ایک اہلکار نے انہیں خود فون کیا اور بتایا کہ وہ اگلے دن برتھ سرٹیفکیٹ لینے آ سکتی ہیں۔ونایا ضابطے کی کسی کارروائی میں ممکنہ دقت کے خیال سے اپنے ضعیف العمر والد کو ساتھ لے گئیں۔بڑے میاں رعشہ کے مریض ہیں۔سفارتی اہلکار نے خاتون کو احترام بھرے انداز میں ڈانٹا کہ وہ والد کو اس حالت میں کیوں لے آئیں ونایا کا کہنا ہے کہ انہیں اس مہربان رویے نے بہت متاثر کیا اور پاکستانیوں کے متعلق ان کی رائے میں بڑی تبدیلی آئی۔ یہ ویڈیو اور اس کے نیچے درجنوں بھارتی شہریوں کے پاکستان کے لئے خیر سگالی کے پیغامات اس لئے اہم ہیں کہ انتہا پسند حکومت کے زیر اثرکچھ بھارتی چینلز مسلسل یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستانی طالب علم مصیبت میں پھنسے بھارتی طالب علموں سے ان کی چیزیں چھین رہے ہیں۔بھارتی میڈیا ایک خبر میں دکھاتا رہا کہ پاکستان اور ترکی کے لوگوں نے روسی قبضے والے علاقوں میں بھارتی پرچم دکھا کر راستہ بنایا Sharman royنامی ایک صارف کا کہنا ہے کہ ایسا ہوا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔جنگ سے متاثرہ علاقے سے نکلنے کے لئے جو طریقہ آسانی فراہم کرے اسے ضرور اختیار کیا جائے۔اس قسم کی پوسٹ اور خبر پر نفرت کا زہر انڈیلنا مناسب نہیں۔ ’’فارن پالیسی‘‘ نے روس یوکرائن جنگ کے جنوبی ایشیا پر اثرات کا جائزہ لیا ہے۔مضمون نگار میخائل کوگلمین کا کہنا ہے کہ پیوٹن کے اقدام نے پاکستان اور بھارت جیسے حریف ممالک کو مشترکہ سفارتی و معاشی مفادات کی ڈور میں باندھ دیا ہے۔اس بحران نے دونوں ملکوں کو افغانستان کے معاملے پر اور جنوبی ایشیا کی پہلی زیر آب سرنگ کی تعمیر میں ایک دوسرے سے تعاون پر آمادہ کیا ہے۔بھارت کے روس اور امریکہ کے ساتھ بیک وقت اچھے تعلقات ہیں جس کے باعث وہ روسی کارروائی کی کھل کر مذمت نہیں کر رہا۔2014میں روس نے کریمیا کو جس طرح ملایا تھا بھارت نے تب بھی خاموشی اختیار کی۔اقوام متحدہ میں بھارت کے نمائندے نے روس کی مذمت پر مبنی قرارداد کے وقت غیر حاضر رہنا مناسب سمجھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکہ‘کینیڈا‘ آسٹریلیا اور یورپی ممالک نے بھارت سے وہ مطالبہ نہیں کیا جو ایک مشترکہ خط کے ذریعے ان ممالک کے پاکستان میں مقیم سفیروں نے پاکستانی حکومت سے کر دیا ہے۔پاکستان کے نام مشترکہ خط میں سفارتی مشنوں کے سربراہوں نے کہا ہے کہ روس نے بلا اشتعال اپنے پرامن ہمسایہ پر حملہ کیا جو اس کے لئے خطرہ نہیں تھا۔سفیر حضرات نے خط میں زور دیا کہ اس قسم کے سنگین حالات میں بین الاقوامی برادری کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اصول و ضابطے پر مبنی بین الاقوامی آرڈر کو برقرار رکھنا چاہیے۔خط میں مزید کہا گیا کہ روس یوکرائن معاملے پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس ہو رہا ہے جس میں روس کو جارحیت سے روکنے کی خاطر قرار داد پر ووٹنگ کی توقع ہے۔پاکستان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے منشور اور اس کے بین الاقوامی اصولوں کی حمایت برقرار رکھنے میں ساتھ دے۔(اس اجلاس میں پاکستان ، چین اور بھارت سمیت پینتیس ممالک نے غیر حاضر رہنا بہتر سمجھا) اس مراسلے پر آسٹریلیا‘ بلجیئم‘ بلغاریہ ‘جمہوریہ چیک‘ ڈنمارک‘ فرانس‘ جرمنی‘ یونان‘ ہنگری ‘ اٹلی‘ پرتگال ‘ پولینڈ‘ رومانیہ‘ سپین‘ سویڈن‘ نیدر لینڈ‘ جاپان‘ ناروے‘ سوئٹزرلینڈ کے علاوہ پاکستان میں متعین یورپی یونین کے نمائندے‘ برطانیہ اور کینیڈا کے ہائی کمشنر اور آسٹریلوی سفارت خانے کے ناظم الامور نے دستخط کئے ہیں۔ یورپ‘ جاپان اور اہم مغربی ریاستوں کے سفارت کاروں کا پاکستان کے نام خط ایک غیر معمولی سرگرمی تصور کیا جا رہا ہے۔پاکستان گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران کئی بار واضح انداز میں سفارتی و سیاسی سطح پر اپنا موقف پیش کر چکا ہے کہ وہ مزید کسی مسلح تنازع کا فریق بنے گا نہ ایسے تنازعات میں الجھے کسی فریق کی حمائت کرے گا۔مغربی سفارت کاروں کا مذکورہ خط میزبان ملک کے موقف پر اثرانداز ہونے اور اسے دبائو میں لا کر مخصوص ردعمل لینے کی کوششں قرار دیا جا سکتا ہے۔ایک آزاد اور خود مختار ریاست سے اس نوع کا ’’اصرار‘‘ کرنے کی بجائے اگر خط میں ’’اپیل‘‘ یا ’’درخواست‘‘ کے الفاظ شامل کئے جاتے تو لہجے میں زبردستی کا تاثر زائل ہو سکتا تھا جسے محترم سفیر حضرات نظرانداز کر گئے۔ جس نوع کا دباو پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے اس جتنا نہ سہی لیکن بھارت کو بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کوس رہی ہے۔بھارت کی انتہا پسند حکومت نئی علاقائی صف بندی میں رکاوٹ ہے لیکن ریاستی مفاد اسے ایک حد سے زیادہ روس سے دور نہیں ہونے دے رہا۔جنرل اسمبلی سے منظور کرائیگئی قرار داد مذمت کی وقعت یہ ہے کہ جرمنی میں اپوزیشن نے امریکی پابندیوں کو روس سے زیادہ اپنے لئے نقصان دہ قرار دیا ہے۔یورپ اس جنگ کی وجہ سے تقسیم ہو رہا اور جنوبی ایشیا میں اتفاق کے امکانات دکھائی دئیے ہیں ۔کیا پتہ یہ امکانات پاک بھارت تنازعات کے پر امن حل کی راہ ہموار کر دیں۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.