Ashraf Sharif 24

1857

کی جنگ آذادی

اشرف شریف

فروری ۲۴۔۔۲۰۲۲

روزنامہ ۹۲نیوز  

          1857ء کے واقعات کے دوران پورے ہندوستان میں انگریز عدم تحفظ کا شکار معلوم ہونے لگے۔ دہلی اور اس کے نواح میں کئی انگریز مار دیئے گئے۔ ان کے خاندانوں کو رسوا کیا گیا۔ جنگ آزادی کے اثرات لاہور تک پہنچ چکے تھے۔ انگریز نے پنجاب پر قبضہ کچھ سال پہلے ہی کیا تھا لیکن سرجان لارنس نے ایک حکمت عملی کے تحت سکھوں کو حکومت کا حامی بنا لیا۔ سکھ ماضی کے واقعات کے باعث بہادر شاہ ظفر کو اپنی قوم کا دشمن سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغل حکمرانوں نے ان کے گوروئوں پر ظلم کئے۔ سکھ انگریز فوج میں بھرتی ہونے لگے۔ اس صورت حال میں بہادر شاہ ظفر کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ سکھوںکے دشمن نہیں۔ کہتے ہیں کہ محاصرہ دہلی اور فتح دہلی کے بعد سکھوں نے ہر خوبرو نوجوان کو مغل خیال کرتے ہوئے قتل کردیا۔ 12 مئی 1857ء کی صبح قلعہ لاہور اور لاہور چھائونی میں بغاوت کی اطلاعات تھیں۔ لاہور کا شاہی قلعہ ان دنوں انگریز فوج کے رہائشی استعمال میں تھا۔ یہاں خزانہ اور اسلحہ خانہ تھے۔ قلعہ چونکہ شہر سے جڑا ہوا تھا اس لیے اس پر قبضے کا مطلب حریت پسندوں کا شہر پر قابض ہو جانا تھا۔ انگریز نے خفیہ اطلاعات موصول ہونے کے بعد اپنی حکمت عملی پر غور کیا اور لاہور کے باشندوں کو پہلے مسلم اور غیر مسلم اور پھر آگے غیر مسلموں کو ہندوئوں‘ سکھوں اور عیسائیوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی جو فوری طور پر عمل پذیر نہ ہو سکی لیکن جنگ آزادی کے خطرات ختم ہونے کے بعد اس پر عمل کیا گیا۔ 12 مئی کی صبح 5 بجے گورا فوج قلعہ میں پہنچ گئی‘ دیسی فوج سے قلعہ کا چارج لے لیا گیا۔ میاں میر چھائونی میں دیسی سپاہیوں سے ہتھیار رکھوا لیے گئے۔ اس دوران فیروز پور چھائونی میں کچھ دیسی فوجی دستوں کی سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ یہ بھی سنا گیا کہ دیسی دستے ستلج پار کر کے لاہور کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ اس خبر نے انگریز حکام کولاہور کی حفاظت کے ضمن میں پریشان کر دیا۔ اس وقت لاہور کا ڈپٹی کمشنر مسٹر ایجرٹن تھا۔ 14 مئی کو دوپہر کے قریب خبر ملی کہ میاں میر چھائونی کے سپاہی بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔ لاہور کی انگریز آبادی خاص طور پر انارکلی میں رہنے والے انگریزوں میں تشویش پھیل گئی۔ انگریز فوج مستعد تھی۔ لاہور کی دیسی فوج بغاوت کے معاملے میں تقسیم تھی اس لیے ہنگامہ دب گیا۔ جو سپاہی چھائونی سے فرار ہوئے تھے انہیں ماجھے کے سکھوں نے پکڑ کر مسٹر تھامس اسسٹنٹ کمشنر قصور کے حوالے کر دیا۔ انگریزوں نے لاہور پر جب قبضہ کیا تو شہر کے نواح میں چاروں طرف سکھ فوج کی قائم کی گئی چھائونیاں ختم کردیں۔ انارکلی کا علاقہ لاہور اور موری دروازے کے بیرون سے لے کر جوبرجی اور مزنگ تک پھیلا ہوا تھا۔ یہاں رنجیت سنگھ کے جرنیلوں و نطورہ اور ایلارڈ کی چھائونیاں تھیں۔ انارکلی کا علاقہ سول سٹیشن قرار دے دیا گیا۔ شاہی مسجد بعد میں خالی کر دی گئی۔ قلعے میں 1926ء تک انگریز فوج متعین رہی۔ لاہور کو جنگ آزادی کے ہنگاموں سے بچانے کے لیے جو اقدامات کئے گئے ان میں شاہی قلعہ میں اسلحہ کا جمع کرنا اور 4 ہزار آدمیوں کے لیے چھ ماہ کے راشن کو ذخیرہ کرنا تھا۔ قلعہ کا صرف ہتھپاپول دروازہ کھلا رہا‘ باقی سارے دروازے دیواریں چن کر بند کر دیئے گئے۔ رخصت پر گئے سپاہیوں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔ انارکلی کے یورپی باشندوں نے ایک رضاکار فورس ترتیب دی جس میں 130 افراد شامل تھے۔ یہ لوگ انارکلی کے سول سٹیشن پر پہرہ دیتے۔ گورے خاندانوں نے طے کیا کہ خطرے کے وقت عورتوں اور بچوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور خود ایک مقررہ جگہ جمع ہوا جائے۔ لاہور کی سڑکوں پر گھڑ سوار پولیس تعینات کردی گئی۔ 9 جون کو بتیسویں نیو انفنٹری کے دو افراد کو پریڈ گرائونڈ میں توپوں سے اڑا دیا گیا۔ یہ سزا فوجی عدالت نے بغاوت کے جرم میں دی تھی۔ کئی انفرادی سطح کے واقعات ہوئے۔ ایک شخص ہاتھ میں تلوار لیے شہر سے نکلا اور ایک سنتری کو قتل کر کے سرکلر روڈ سے ہوتا ہوا کشتیوں کے پل کی طرف جانے والا تھا کہ گھڑ سوار سپاہی نے گولی مار دی۔ انگریز نے چند سال پہلے ہی پنجاب پر قبضہ کیا تھا۔ اگرچہ سکھوں کی بڑی تعداد گورا فوج کا حصہ بن چکی تھی لیکن یہی بات انگریزوں کو خوفزدہ کر رہی تھی‘ انہوں نے طے کر لیا کہ پنجاب پر اپنا خوف بٹھانے کے لیے انہیں قتل عام کرنا ہوگا۔ نہتے سپاہی اور عام شہری ان کا نشانہ تھے۔ کئی خوفزدہ لوگ لاہور سے بھاگے اور نواحی دیہات کو لوٹتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اکثر باغیوں کو کمپنی باغ میں جمع کیا گیا جو بعد میں لارنس گارڈن اور اب باغ جناح کہلاتا ہے‘ کئی کو وہاں مار دیا گیا۔ بغاوت کو مکمل طور پر کچل دیا گیا۔ سب سے پہلے انارکلی چھائونی کو محفوظ بنایا گیا۔ پرانی انارکلی بازار میں ایک دیسی سپاہی نے بغاوت کے حق میں نعرے لگائے‘ اسے توپ کے دھانے سے باندھ کر اڑا دیا گیا۔ شہر میں سکہ اور گندھک کی فروخت پر پابندی لگا دی گئی۔ جہاں ذخیرہ موجود تھا وہ ضبط کر لیا گیا۔ اندرون لوہاری دروازہ لا ہوریوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جلوس نکالا۔ انگریز پولیس کے افسر سبحان خان نے جلوس کو منتشر کیا اور پانچ حریت پسند گرفتار کر لیے۔ شہر کے کئی دروازوں کے سامنے توپیں نصب کر دی گئیں۔ شہر میں خفیہ اہلکار حریت پسندوں اور ان کے حامیوں کی نشاندہی کے لیے تعینات کر دیئے گئے۔ ’’بلائنڈ ٹیرر اور پنجابز رول ان دی وار آف انڈپینڈنس 1857-58ئ‘‘ جیسی کتابوں میں حقائق کا کچھ حصہ موجود ہے۔ 30 جولائی 1857ء کو میاں میر کے علاقے میں قائم نئی چھائونی میں بڑا دھماکہ ہوا۔ حالات خراب ہو گئے۔ دیسی سپاہیوں نے میجر سپنسر کو قتل کردیا۔ سینکڑوں سپاہی محمود بوٹی کے علاقے کی طرف چل پڑے۔ امرتسر کے ڈپٹی کمشنر مسٹر کوپر نے ان سپاہیوں پر گولیاں برسا دیں۔ سینکڑوں شہید ہو گئے۔ لاہور نے آزادی کی اس پہلی تحریک میں اپنا خون بہا کر حصہ لیا۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.