سیاسی پیشرفت کی کہانیاں
اشرف شریف
جنوری ۲۲۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ ۹۲نیو
بہت سے لوگ ایک ساتھ صدارتی طرز حکومت کی دھمک سننے کا دعو یٰ کر رہے ہیں ۔ کچھ نے تو امریکی اور فرانسیسی نظاموں کا مکسچر بنا کر اسے پاکستان کا نظام قرار دیدیا ہے ۔اپوزیشن حکومت گرانے کے لئے پس پردہ ڈیل کی باتیں کر رہی ہے‘حکومتی بنچ جواب میں مسلم لیگ ن کے چار سینئر اراکین کا معاملہ اٹھا رہے ہیں جوشریف خاندان کو نفی کرکے وزیر اعظم بننے کی بابت ڈیل کے لئے تیار ہیں۔ان میں سے ایک کا نام چند ہفتے قبل کالم میں بتا چکا ہوں جب خفیہ رابطے شروع ہوئے تھے۔ڈیل کا بازار کس قدر گرم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ سندھ تک محدود سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی نے بھی ایک پیکیج تیار کرکے فیصلہ سازوں کو پیش کر دیا ہے۔اس پیکیج میں پی پی کی جانب سے وزیر اعظم کے امیدواروں ‘ریاست کو لاحق بحرانوں اور ان بحرانوں کو وسیع البنیاد حکومت کی مدد سے حل کرنے کی بابت کچھ تفصیل موجود ہے۔اس پیکیج کا پیش لفظ آصف علی زرداری کا وہ بیان ہے جس میں انہوں نے کسی خلائی قوت سے کہا تھا کہ ’’ہم ریاست کو بحرانوں سے نکالنا جانتے ہیں آپ پہلے اس (عمران خان) کو گھر بھیجیں پھر مسئلے کا حل بتائیں گے‘‘۔ سیاسی قیادت سے سنجیدگی اور بالغ نظری کی امید پیدا نہیں ہو پا رہی۔یوں لگتا ہے ہم برسوں جس پودے کو زیتون سمجھ کر دیکھ بھال کرتے رہے وہ کاہو نکل آیا ہے ،اس سے کلہاڑی اور کسی کا دستہ تو بنایا جا سکتا ہے پھل نہیں مل سکتا۔سابق نقصان اور خسارے کا احساس اس وقت زائل ہو جاتا ہے جب مستقبل میں فائدے کے امکانات پھولتے نظر آئیں۔ہمارے ارد گرد ترتیب ، دانشمندی اور تعمیر کی خواہش جیسے پھول نہیں کھل سکے ،ہم کہاں جائیں کہ آنے والا زمانہ بھی اندھیرا دکھائی دے رہا ہے۔ جمہوریت کی سینکڑوں تعریفیں ہیں‘ہر موقع پر جمہوریت کا شربت نئے برتن میں ڈھل جاتا ہے لیکن جمہوری اقدار وہی رہتی ہیں‘جمہوریت ریاست کے سامنے سرنڈر کرنے والی ڈاکو پھولن دیوی کو لوک سبھا کی معزز رکن بنا سکتی ہے ،کچھ ملکوں میں جمہورت اچھے خاصے نیک نام لوگوں کو لوٹ مار کی طرف راغب کر لیتی ہے ۔جنرل پرویز مشرف کو رخصت ہوئے پندرہ برس ہونے والے ہیں۔اس عرصہ میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تیسری جمہوری قوت تحریک انصاف ایک ایک بار اقتدار میں آ چکی ہیں۔کے پی کے میں تحریک انصاف دوسری مدت پوری کرنے جا رہی ہے‘پنجاب میں ن لیگ مسلسل دس سال حکومت کر گئی‘سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل اقتدار کے پندرہ برس مکمل کرنے والی ہے۔بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی نے تبدیلی کا احساس پیدا کیا ہے۔آزاد کشمیر میں پہلی بار مسلم لیگ ن اور پی پی کے علاوہ کوئی حکومت بنی ہے‘گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔اب ذرا جائزہ لیں کہ پاکستان صرف لاہور‘کراچی اور اسلام آباد نہیں۔اس میں وہ سب علاقے شامل ہیں جہاں پی ٹی آئی‘پی پی اور ان کی اتحادی جماعتیں اقتدار میں ہیں۔کشمیر کونسل کی دو نشستوں کے انتخاب میں دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔اگر پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ کی مدد نہ کی تو مدت کے بعد پہلی بار ہو گا کہ کشمیر کونسل میں مسلم لیگ کی ایک نشست بھی نہیں رہے گی۔ ایک اہم معاملہ جنوبی پنجاب صوبے کا ہے۔پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جا چکا ہے۔پی ٹی آئی اور پی پی کے درمیان اس بل پر بڑی حد تک اتفاق پایا جاتا ہے۔معاملہ صرف اس نکتہ پر اٹکا ہے کہ فوری فائدہ کون اٹھائے اور طویل المدتی پھل کون اپنی جھولی میں ڈالنے پر اکتفا کرتا ہے۔سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن یوسف رضا گیلانی واضح کہہ چکے کہ صوبہ جنوبی پنجاب پر فیصلہ کرنے کے لئے ان کی جماعت سے بات کی جائے‘وہ گورنر اور وزیر اعلیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔شائد جان بوجھ کر انہوں نے اس پیرایہ میں بات کہ سننے اور پڑھنے والا اسے مکمل صوبہ کی شرط سمجھے یا دونوں منصب پی پی کو دینے کا مطالبہ۔میرا خیال ہے یہ گورنر اور وزیر اعلیٰ پی پی کا مقرر کرنے کا مطالبہ ہی ہے۔پیپلز پارٹی کا خیا ل ہے کہ جنوبی پنجاب میں وہ اپنے خوابیدہ ووٹ بنک کو جگا سکتی ہے۔ممکن ہے اس مقصد کی خاطر وہی کیمیا گری بروئے کار لائی جائے جو لاہور کے حلقہ 133کے حالیہ ضمنی الیکشن میں دیکھی گئی۔دو صوبوں میں حکومت بنانے کا منصوبہ پیپلز پارٹی کے سکڑتے وجود کو جمہوری ہاتھ پائوں پھیلانے کا موقع دے سکتا ہے۔دوسری جانب پی ٹی آئی ہے جو اپنے انتخابی منشور کی اس اہم شق کو پورا کرنا چاہتی ہے۔سرائیکی ووٹ بینک پی ٹی آئی کے ساتھ باقی لسانی اکائیوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے سبھی پاکستانی یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔پی ٹی آئی کو ووٹر تک پہنچنے کے لئے کوئی سیڑھی چاہیے۔جنوبی پنجاب صوبہ اگرچہ ایک جاگیردار صوبہ ہو گا جہاں عام آدمی ہزاروں ایکڑ کے مالک منتخب نمائندوں کے رحم و کرم پر رہے گا لیکن بہرحال یہ وہاں کا ایک مقبول مطالبہ ہے جس پر پی ٹی آئی اپنا ووٹ بنک بڑھانے کے لئے انحصار کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس امید کی لالٹین ضمنی انتخابات میں اپنی نشستوں پر دوبارہ کامیابی ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات نے دوسری امید پیدا کی۔مسلم لیگ سمجھتی ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات اسے دوبارہ اقتدار میں لا سکتے ہیں۔پھر ایک اہم تقرری کا وقت بھی ہوا چاہتا ہے۔لیکن اندازے ہمیشہ سامنے کی چیزوں پر تکیہ کرنے والوں کے غلط ہوتے ہیں۔پردے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک معمول کی کارروائی ہے جو عام انتخابات سے ایک برس پہلے شروع ہو جایا کرتی ہے۔اب اس کی بنیاد پر کہانیاں لکھنی ہوں تو لکھتے رہیے۔