اسرائیل ماضی اپنے کندھے پر رکھ کر چلتا ہے
اسد مفتی
فروری ۱۲۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
اسرائیل کے نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ایران کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کا کوئی ارادہ نہیں، انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایران کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایرانی صدر (جنہوں نے حال ہی میں دھمکی دی ہے )ایرانی عوام کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہیں کیونکہ یہ شخص نہ تو کوئی وعدہ نبھاتا ہے اور نہ ہی کوئی حل ڈھونڈتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک برطانوی تھنک ٹینک نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران دو سے تین برس میں ایٹمی ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ دعویٰ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فاراسٹرٹیجک اسٹڈیز کے سربراہ جان چم مین نے دنیا کی مجموعی فوجی طاقت کے جائزے پر مشتمل سالانہ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر لندن میں کیا ہے۔
دعوے اور جوابی دعوے سے قطع نظر آئیے آپ کو ایران اسرائیل تنازع کے پس منظر میں ایک دلچسپ کتاب کے اقتباسات سے روشناس کرواتا ہوں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ڈاکٹر جیرم آر کورسی نے اپنی کتاب ’’ایٹمی ایران‘‘ میں ایران پر اسرائیل کے پیشگی حملے کو بائبل کی تعلیمات کے عین مطابق قرار دیا ہے۔ اس کتاب میں جیرم آر کورسی نے لکھا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی اجازت دینے کا مطلب پوری دنیا کی تباہی و بربادی کا بٹن اس کے حوالے کر دینا ہے۔ کتاب میں اس بات کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ایٹمی ایران تل ابیب پر اچانک حملہ کر سکتا ہے اور اگر تل ابیب پر حملہ ہوا تو پورا اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔ اسرائیل کی تباہی کے لئے ایک ایٹم بم ہی کافی ہے۔ ڈاکٹر جیرم آر کورسی نے ایران پر پیشگی حملے کو بائبل کے فرمان کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے یہ تجویز کیا کہ اسرائیل عراق میں امریکی اڈے استعمال کرتے ہوئے باآسانی ایران کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کر سکتا ہے اس کے علاوہ خلیج فارس میں امریکی طیارہ بردار بحری جہازبھی حملے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ جیسا کہ سالانہ رپورٹ کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ ایران کے پاس ڈھائی سوٹن یورینیم فلورائڈ ہے جو افزودہ ہونےکی صورت میں 30سے 50 ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئےکافی ہو سکتی ہے۔ مصنف کورسی نے 2015 میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس میںتل ابیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اسرائیل ایران پر پیشگی حملے کی پہلے ہی ریہرسل کر چکا ہے ، مصنف کے مطابق اسرائیل کے دو اہم شہروں (جو دراصل مقبوضہ علاقے ہیں) بیت المقدس اور تل ابیب میں سے کسی بھی شہر پر حملہ کیا گیا تو وہ دراصل تل ابیب پر حملہ تصور کیا جائے گا اور تل ابیب پر نیو کلیئر حملہ اسرائیل کی معیشت کی بنیادیں ہلا دے گا۔ لاکھوں افراد موقع پر ہی ہلاک ہو جائیں گے۔ اس کے چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد ہی تابکاری سے مزید ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن جائیں گے ،اس لیے اسرائیل کو چاہیے کہ کمانڈو کارروائی کے ذریعے چند اہم ایرانی رہنمائوں کو قتل کر کے پورے ملک میں ہل چل مچا دے اور حملے سے قبل یہ کارروائی بہتر اور اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ کتاب ایٹمی ایران میں جیرم کورسی نے انتہا پسندمسیحیوں کے اسرائیل کی بقا میں اہم کردار کا حوالہ دیتے ہوئے بائبل کے اقتباسات پیش کیے ہیں وہ لکھتا ہے ’’سیمسن اینڈ ڈیلائلا کی کہانی پر غور کیجیے (16.4-3 ججز) ڈیلائلا نے اپنے شوہر سے بے وفائی کی۔ اس نے فلسطینی عوام کے لئے جواسرائیلیوں کے دشمن ہیں، اپنے شوہر کو دھوکہ دیا، سیمسن کی طاقت اس کے بالوں میں تھی۔ فلسطینیوں نے اس کی آنکھیں نکال لیں اور بال کاٹ دیئے۔ سیمسن اپنے گناہوں پر بہت نادم ہوا اس کےبال دوبارہ اگ آئے اور اس کی طاقت بھی واپس آگئی۔ موقع ملتے ہی اس نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے مندر کے دو بڑے ستونوں کو گرا دیا، اس طرح مندر کی چھت ان فلسطینیوں پر گر گئی جو اسے بھینٹ چڑھانا چاہتے تھے،سیمسن نے اس طرح ایک بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا مگر چھت گرنے سے وہ خود بھی مارا گیا۔ کتاب کے مصنف نے اس واقعہ کو مشرق وسطیٰ کے بحران کا حل بتایا ہے اس نے اسے ’’اسرائیل کا سیمسن آپشن‘‘ قرار دیا ہے ۔ بائبل میں بیان کئے گئے اس واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے ایران پر پیشگی حملے کی بھر پور حمایت کی ہے کہ اسرائیل کے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس پر پہلے حملہ کر دے جیسا کہ اس نے عراق پر کیا تھا۔ آگے چل کرمصنف نے خود ہی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اسرائیل ایران پر حملہ کیوں کرے؟ او رخود ہی اس سوال کا جواب دے دیا ہے، وہ کہتا ہے کہ اسرائیل نے قسم کھائی ہے کہ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام جیسا دوسرا واقعہ وہ اب کبھی نہیں ہونے دے گا واقعہ اس لئے ظہور پذیر ہوا تھا کہ یورپ کے یہودی مزاحمت نہیں کر سکتے تھے لیکن اسرائیل اب ایسا نہیں ہونے دے گا۔ 5جون 1976 کو چھ روزہ جنگ کے آغاز پر ہی اسرائیل نے سرزمین مصر پر کھڑےفضائی بیڑے کو تباہ کر دیا تھا۔ یہ اسی ’’قسم‘‘ کے تحت کیا گیا۔ جون 1981 میں عراق کی ایٹمی تنصیبات پرحملہ بھی اسی قسم کا نتیجہ تھا اور اب اگر اسرائیل کے لئے کوئی دوسرا خطرہ موجود ہے تواسے مٹانے کے لئے بھی یہی قسم کام آئے گی۔
فرہاد کو پڑا تھا محبت سے ایک کام
مجنوں لگا ہوا تھا محبت کے کام پر
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)