’باب دوستی‘ وا کریں
اسد مفتی
جنوری 1۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اسلام آباد نے جو نظام تشکیل دیا ہے اور جو حکومتِ وقت کی رہنمائی کرتا ہے اس کے مطابق بھارت کے حلقۂ اثر میں اضافہ ہورہا ہے، اس لیے اُس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔ بھارت کے ساتھ قیامِ امن کی آواز اگرچہ پاکستان میں بھی قوت پکڑ رہی ہے، اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ سالِ گزشتہ لگ بھگ ساٹھ، ستر افراد واہگہ سرحد پر آگئے تھے جنہوں نے زیرو پوائنٹ پر موم بتیاں روشن کرکے عداوت کے اندھیرے کو مار بھگایا تھا۔
کچھ عرصہ قبل امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے واہگہ اٹاری بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کے موقع پر ہونے والی پاک بھارت سرحدی محافظوں کی جارحانہ پریڈ کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ قومی پرچم اتارنے کی یہ تقریب 65برس سے ہر شام باقاعدگی سے ہوتی ہے۔ ’’حساس ترین‘‘ بارڈر پر دونوں طرف سینکڑوں تماشائی اپنے اپنے قومی ترانے سنتے ہیں اور سرحدی محافظوں کو جارحانہ انداز میں اپنے قومی پرچم کو سلامی دیتے دیکھتے ہیں۔ سورج غروب ہونے سے نصف گھنٹے پہلے تک جاری رہنے والی یہ دلچسپ پریڈ یا تقریب دونوں ممالک کے درمیان خیرسگالی، بھائی چارے، امن اور دوستی کو فروغ دینے کے بجائے چھ دہائیوں سے زائد جاری عداوت کو برقرار رکھنے میں معاون و مددگار ثابت ہورہی ہے۔ واہگہ اٹاری بارڈر پر ہر شام تفریح کیلئے آنے والے پاکستانی و بھارتی عوام کی تعداد بعض اوقات سینکڑوں سے تجاوز کرکے ہزاروں تک جا پہنچتی ہے، بسا اوقات تقریب میں مزید رنگ بھرنے کے لئے فلک شگاف نعرے بازی بھی شامل کرلی جاتی ہے جس سے دنیا کا حساس ترین ’’بارڈر‘‘ مزید حساس ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بچے (جو سیاسی نہیں ہوتے) اپنے ننھے مکے ہوا میں لہراتے ہوئے جارحانہ ترانے گانے لگتے ہیں۔ میں نے ایک بار نو عمر، اسکول کے ایک بچے، سے مکے لہرانے کی وجہ پوچھی کہ تم کس کو مکے دکھا رہے ہو؟ اس معصوم کا جواب تھا ’’میں نے اسکول کی کتاب میں اپنے وزیراعظم لیاقت علی خان کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ انڈیا کو مکا دکھا رہے تھے، میں بھی انڈیا کو مکا دکھا رہا ہوں‘‘۔ حب الوطنی کا یہ مظاہرہ بچوں نے اپنے بڑوں سے سیکھا ہے لیکن بارڈر پر ایسے مظاہروں کے دوران کچھ ناخوش گوار واقعات بھی جنم لے لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب بارڈر کا گیٹ بند ہونے کی تقریب سے کچھ دیر پہلے دہلی جانے والی پاکستانی بس کو سرحد پار کرنے کی اجازت دی گئی تو بھارتی تماشائیوں کی طرف سے ’’دہشت گردی روکو، دہشت گردی روکو‘‘ کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ بھارتی تماشائیوں کی جانب سے سرحدی محافظوں کی پریڈ کے انداز کو جارحانہ قرار دیا جارہا ہے یہی بات کلدیپ نیئر بھی کئی بار اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں۔ کلدیپ نیئر نے ایک بار مجھے بتایا کہ واہگہ اٹاری بارڈر پر آنے والے دہلی کے ایک 22سالہ نوجوان نے پاکستان رینجرز اور بھارتی بارڈر سیکورٹی فورسز کی جارحانہ پریڈ دیکھنے کے بعد یہ کہا کہ یہ پریڈ حب الوطنی کا جذبہ ابھارنے کی بجائے انتہائی جارحانہ جذبات کا تاثر قائم کرتی ہے، جارحانہ انداز کی اس پریڈ کی بجائے دونوں ملکوں کو امن پسندی، خیرسگالی اور دوستی پر مبنی ایسا مشترکہ پروگرام ترتیب دینا چاہئے جو دونوں ملکوں کے باسیوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ واہگہ بارڈر پر لگ بھگ 40سال کے بعد پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران ایک بار پھر سخت جذبات عود کر آئے ہیں، سرحدی محافظوں کی آنکھیں اور چہرہ سرخ دکھائی دینے لگا ہے، پرویز مشرف کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ صورت حال میں کمی کے باعث واہگہ بارڈر پر ہر شام کو پرچم اتارنے کی تقریب یا سلامی دینے کے دوران لگ بھگ 65سال سے جاری کھردرے اور سخت جذبات میں نرمی آئی تھی اور کئی مواقع پر نہ صرف تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا بلکہ متعدد سماجی تقریبات بھی منعقد کی گئیں تاہم ممبئی حملوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کا اثر واہگہ بارڈر پر کھڑے سرحدی محافظوں پر بھی ہوا اور اب ایک بار پھر پرچم اتارنے کی تقریب کے دوران ایک دوسرے کو غصیلی نظروں، چہرے پر شدید تنائو، پائوں سے زمین اکھاڑنے کی ناکام کوششوں کو دیکھا جا سکتا ہے یہ کوششیں ’’بابِ آزادی‘‘ کے سائے تلے ہورہی ہیں جبکہ ہمیں ’’باب دوستی‘‘ وا کرنا چاہئے۔
نہ چھوڑنے کا ارادہ نہ ساتھ چلنے کا
عجیب موڑ پہ آکر ٹھہر گئے دونوں